Tuesday, August 12, 2008

)اگست کرانتی 9اگست 1942
سے یوم آزادی 2008تک
(
تقسیم وطن کے بعد آخر ہندوستانی مسلمانوں نے یہ کیوں کہا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے؟

اگر ہندوستان کے لوگ اپنی مرضی سے بٹوارے کو قبول کرتے تو پنجاب، فرنٹیر، سندھ اور بنگال کے ہندو اور سکھ اسی طرح خوشیاں مناتے جیسے اس علاقے کے مسلمانوں نے منائیں۔ اس پورے علاقے سے موصول رپورٹوں نے یہ ظاہر کیا کہ یہ دعویٰ کہ بٹوارے کو کانگریس کے قبول کرنے کا مطلب ہندوستان کے لوگوں کا قبول کرنا ہے، کتنا کھوکھلا تھا۔

پاکستان کے مسلمانوں کے لےے14اگست خوشی کا دن تھا۔ ہندوﺅں اور سکھوں کے لےے یہ دکھ کا دن تھا۔ یہ صرف زیادہ تر لوگوں کی سوچ نہیں تھی بلکہ کانگریس کے اہم لیڈروں کا بھی یہی خیال تھا۔ آچاریہ کرپلانی اس وقت کانگریس کے صدر تھے۔ وہ سندھ کے رہنے والے تھے۔ 14اگست1947کو انہوں نے بیان جاری کیا کہ یہ ہندوستان کے لئے افسوس اور تباہی کا دن ہے۔ پورے پاکستان کے ہندوﺅں اور سکھوں نے اسی خیال کا کھلے عام اظہار کیا۔ حقیقت میں یہ ایک نامعلوم حالات تھے، ہماری قومی تنظیم کانگریس نے بٹوارے کے حق میں فیصلہ کیا تھا مگر بٹوارے سے پوری آبادی رنجیدہ تھی۔ اخلاقی طور پر یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ اگر بٹوارہ سے یہاں کے تمام لوگوں کے دلوں میں غم و غصہ تھا تو آخر کیوں ہندوستان کے لوگوں نے بٹوارے کو قبول کیا۔

اس کی بڑے پیمانے پر مخالفت کیوں نہیں کی۔ ایک ایسا فیصلہ کرنے کی اتنی جلدی کیوں تھی؟ جسے ہر کوئی غلط سمجھ رہا تھا۔ اگر15اگست1947تک ہندوستانی مسئلہ کا صحیح حل نہیں نکل سکتا تھا تو ہم نے ایک غلط فیصلہ کیوں کیا اور اب اس پر افسوس کیسا؟ میں نے بار بار یہ کہا تھا اس وقت تک انتظار کیا جائے جب تک صحیح حل نہیں مل جائے۔ میں نے اپنی جانب سے پوری کوشش کی لیکن میرے دوستوں اور ساتھیوں نے بدنصیبی سے میرا ساتھ نہیں دیا۔ اصل میں ان کے آنکھیں بند کئے رہنے کی ایک ہی وجہ جو میں سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ غصہ یا ناامیدی نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا تھا۔ شاید یہ بھی ہو کہ ایک تاریخ 15اگست کے طے ہوجانے نے جادو دکھایا، انہیں بٹوارے کے بارے میں جو کچھ بھی لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے کہا اسے قبول کرنے کے لےے مجبور کردیا۔

یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس میں افسوس اور مضحکہ خیزی دونوں ہی شامل تھےں۔ تقسیم کے بعد سب سے مضحکہ خیز صورتحال مسلم لیگ کے ان لیڈروں کی تھی جو تقسیم کے بعد بھی ہندوستان میں رہ گئے تھے۔
جناح اپنے حامیوں کو یہ پیغام دے کر کراچی چلے گئے کہ اب ملک کا بٹوارہ ہوگیا ہے اور اب وہ ہندوستان کے وفادار شہری ہوجائیں۔ اس الوداعی پیغام نے ان کے اندر کمزوری اورمحرومی کا عجیب احساس بھر دیا۔ ان میں سے بہت سے لیڈر میرے پاس14اگست کے بعد ملنے آئے۔ ان کی حالت قابل رحم تھی۔ ان میں سے ہر ایک نے انتہائی غم وغصہ کے ساتھ کہا کہ جناح نے انہیں دھوکہ دیا اور انہیں منجھدار میں چھوڑ گئے۔

پہلے میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ ان کے یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ جناح نے انہیں دھوکہ دیا۔ انہوں نے کھلے عام مسلم اکثریتی علاقوں کی بنیاد پر ملک کی تقسیم کا مطالبہ کیا تھا۔ تقسیم اب ایک سچائی تھی اور مشرق ومغرب دونوں کے ہی مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کے حصے بن چکے تھے پھر بھی مسلم لیگ کے ان ترجمانوں نے کیوں کہا کہ انہیں دھوکہ دیا گیا۔

جب میں نے ان سے بات کی تو میں نے پایا کہ بٹوارے کی تصویر جو ان کے دماغ میں تھی وہ حقیقت سے دور تھی۔ وہ پاکستان کے قیام کے اثر کو سمجھنے میں ناکام ہوگئے تھے۔ اگر مسلم اکثریتی علاقوں کو ایک علیحدہ ریاست تسلیم کرلیا جائے تو یہ بات صاف تھی کہ وہ علاقے جن میں سے مسلمان اقلیت میں ہیں ہندوستان کا حصہ ہوگا۔ اترپردیش اور بہار کے مسلمان اقلیت میں تھے اس لےے یہ تقسیم کے بعد یہیں رہ گئے۔ یہ حیرت انگیز مگر سچ ہے کہ مسلم لیگ نے بے وقوفی سے لوگوں کو سمجھایا تھا کہ ایک بار پاکستان بن گیا تو مسلمان جہاں کہیں بھی اکثریتی یا اقلیتی علاقہ میں ہیں انہیں الگ ملک سمجھا جائے گا اور وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کے حقدار ہوں گے۔

اب جبکہ مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان سے کٹ چکے تھے اور یہاں تک کہ بنگال اور پنجاب کا بھی بٹوارہ ہوچکا تھا اور مسٹر جناح کراچی چلے گئے تب ان بے وقوفوں کو سمجھ میں آیا کہ انہیں کچھ نہیں ملا۔ حقیقت میں انہوں نے ہندوستان کے بٹوارے سے سب کچھ کھو دیا تھا۔

مذکورہ بالا اقتباسات مولانا آزاد کی تاریخی تصنیف ”انڈیا ونس فریڈم “ سے ماخوذ ہےں۔اس کا سلسلہ جاری ہے اور انشاءاللہ ابھی جاری رہے گا۔لیکن ساتھ ساتھ راقم الحروف ان تاریخی حقائق کی روشنی میں دور حاضر تک کے منظر نامے کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے تاثرات بیان کرنے کی جسارت بھی کر رہا ہے،تاکہ گزشتہ ساٹھ برسوں میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا اس کو بھی سمجھ سکیں ۔

تقسیم وطن کے فیصلے کے بعد محمد علی جناح ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے نام یہ فرمان جاری کر کے کراچی چلے گئے کہ اب ہندوستان ہی آپ کا ملک ہے اور آپ اب ہندوستان کے وفادار شہری بن کر رہیں۔محمد علی جناح کے اس جملے پر اس وقت کانگریس کے صدر آچاریہ کرپلانی کے رویہ اور سردار پٹیل کے رد عمل پر میں اپنے تاثرات اس سلسلے وار مضمون کی آئندہ قسطوں میں پیش کروںگا اور ایک سوال جو بار بار ذہن میں آرہا ہے کہ کیا واقعی 15 اگست 1947 ہندوستان کی آزادی کا دن تھا ؟

اس پر بھی انشاءاللہ گفتگو ضرور ہوگی ،لیکن پہلے مولانا آزاد کے ان جملوں پر میں از سر نو غور کرنے کی ضرورت سمجھتا ہوں جن میں انھوں نے لکھا کہ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اب ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان ایسا کیوں محسوس کر رہے تھے کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہواہے۔تقسیم سے ان کی مراد یہ قطعاً نہیں تھی جس طرح سے پاکستان عمل میں آیا اور وہ ہندوستان میں رہ جانے والی اکثریت کے رحم و کرم پر زندہ رہنے پر مجبور ہو گئے۔ ان میں وہ مسلم لیگی بھی شامل تھے جو تقسیم کے حامی تھے۔

مولانا آزاد نے اپنی مذکورہ تحریر میں یہ بھی فرمایا کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے ذہن میں یہ تھا کہ وہ جہاں جہاں بھی اکثریت میں ہوںگے۔وہ ان کی ریاست ہوگی اور وہ اس کے خود مختار ہوںگے۔جبکہ تقسیم کے بعد کے ہندوستان میں وہ صرف اور صرف ایک اقلیت تھے اور اگر کہیں کسی شہر یا ریاست میں ان کی اکثریت تھی تو بھی وہ بے معنی تھی۔

بس میں ان کے اسی انداز فکر پر آج اپنے قارئین کی توجہ دلانا چاہتا ہوںکہ آخر اس وقت ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے ذہن میں کیا رہا ہوگا اور کیوں پاکستان کے قیام کو وہ اپنے ساتھ دھوکہ قرار دے رہے تھے؟دراصل اگر آپ ہندوستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ راجہ، رجواڑوں،نوابوں اور جاگیر داروں کا ملک تھا۔ایک چھوٹا سا قصبہ حتی کے ایک گاﺅں ٰبھی کسی نواب یا جاگیر دار کی ریاست ہوتی تھی۔اس وقت کے ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے یقینا ہندوستان کی وہی تصویر رہی ہوگی کہ اب آزادی کے بعد اگر ایک گاﺅں میں بھی ہماری اکثریت ہے تو وہ گاﺅں ہماری ریاست ہوگی۔میرا تعلق ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے ضلع بلند شہر سے ہے، جو کبھی راجہ ”برن“کی ریاست ہوا کرتی تھی اور اگر اس ایک شہر کو اس سے بھی چھوٹے دائرے میں جا کر دیکھیں تو بلند شہر ضلع کا ایک چھوٹا سا قصبہ ”پہاسو“ بھی نواب پہاسو کی ریاست تھی۔جہاں آج بھی آبادی ایک لاکھ سے زیادہ نہیں ہوگی اور ساٹھ برس قبل تو دس ہزار کی آبادی بھی کچھ زیادہ ہی نظر آتی ہے۔

”پہاسو“ کی طرح ”چھتاری“ کے نواب بھی ایک مسلمان تھے اور چھتاری پہاسو سے بھی بہت چھوٹا تھا۔اسی طرح شکار پور ،چونڈیرا وغیرہ کابھی اپنا اپنا ایک الگ وجود تھا۔اگر صرف بلند شہر کی تاریخ بیان کروں تو بھی اس وقت کے ہندوستان کی ایک ایسی تصویر آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوگی،جہاںسےکڑوں راجہ اور نواب حکومت کرتے تھے۔اگر اس وقت کے ہندوستانی مسلمانوں کے ذہن میں کچھ ایسا ہی تصور تھا تو اس میں غلط کیا تھا؟آخر ان کی نظر میں تو ہندوستان کا ماضی ہی رہا ہوگا اور اگر ایک نظر ہندوستان کے باہر بسے مسلم ممالک پر ڈالیں تو آج بھی قارئین کے لئے یہ سمجھنا قطعاً مشکل نہیں ہوگا کہ آخر ان کی سوچ کیا رہی ہوگی اور یہ تقسیم ان کے ساتھ دھوکہ کیوں تھی، اور اگر یہ دھوکہ تھا تو دھوکہ کس نے دیا؟محمد علی جناح نے، پنڈت جواہر لال نہرو نے،سردار پٹیل نے ؟

اس سب پر بھی گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے اور آئندہ انشاءاللہ اس سمت میں گفتگو بھی ہوگی ۔مگر میں آج کی اس تحریر کو چند مسلم ممالک کے نام بطور مثال پیش کر کے اپنی بات ختم کرو ںگا تاکہ پھر کل کی تحریر کا سلسلہ یہیں سے آگے بڑھایا جا سکے اور اس درمیان آپ کو یہ سوچنے کا موقع بھی رہے کہ میں جو کچھ لکھ رہا ہوںکیا واقعی یہ اس وقت کے حالات کی عکاسی کرتا ہے یا محض میرا ایک خیال ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں۔

دبئی،شارجہ،ابو ظہبی،اجمان،بحرین،قطر ،عمان وغیرہ وغیرہ مسلمانوں کے ایسے ممالک ہیںجن کا رقبہ اور آبادی ہندوستان جیسے بڑے ملک کے ایک ایک شہر سے بھی بہت کم ہے ۔اور اگر ان ممالک کے باشندوں کا طرز زندگی دیکھیں اور ان کے سکے کی بین الاقوامی قیمت پر غور کریں تو آپ یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیوں بٹوارے کے بعد مسلمانوں نے اسے اپنے ساتھ دھوکہ قرار دیا۔سب سے بہتر تو یہ تھا کہ ہندوستان کی سا لمیت ان کے حق میں ہوتی ،یا پھر ان کے ذہن میں ماضی کا وہ ہندوستان رہا ہوگا جہاں چھوٹے چھوٹے سے علاقوں پر نوابوں اور راجاﺅں کی حکومت تھی اور آج ان کے ایسے ہی تصور کی عملی شکل دبئی ،شارجہ اور بحرین جیسے ممالک کی شکل میں ہمارے سامنے ہے
جاری

No comments: