انا ہزارے اور ان کی ٹیم کے کلیدی ممبران میں سے کوئی بھی سیاستداں نہیں ہی، مگر آج وہ ہندوستان کی سیاست پر حاوی ہیں، لہٰذا یہ تو سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ ان سب کو سیاست کی سمجھ نہیں ہے یا وہ نہیںجانتے کہ سیاست میں کس بات کا فائدہ اور کس کا نقصان ہوتا ہے اور اسی لحاظ سے طے ہوتا ہے کہ کن ایشوز کو اٹھانا ہے اور کن کو نہیں اٹھانا ہی۔ کن ایشوز کے اٹھانے سے کون متاثر ہوگا۔ ملک کے عوام میں کیا پیغام جائے گا، کون دوست بنے گا، کون دشمن بنے گا اور پہلا قدم اٹھانے سے بہت پہلے ہی یہ سب کچھ سوچ لیا گیا ہوگا۔ بہت غوروفکر کے بعد بھی کسی نتیجہ پر پہنچے ہوں گی۔ بدعنوانی کے ایشو کا انتخاب ایسا ہی ایک قطعاً غیرمتنازع ایشو ہی، جس پر کسی کو بھی لبیک کہنے کے سوا، کوئی دوسرا موقع نہیں ہی۔ آخر کون شخص ہوگا، جو یہ کہے کہ بدعنوانی کے خلاف آواز نہیں اٹھائی جانی چاہئی۔ اس لئے کہ جو بھی کہے گا، اپنے اس ایک جملہ سے وہ یا تو بدعنوان یا بدعنوانی کا حامی ثابت ہوجائے گا۔ جب سے ٹیم انا نے بدعنوانی کے خلاف مہم کی شروعات کی ہے اور بھی کئی اہم قومی مسائل ان کے سامنے رکھے گئی۔ بارہا یہ کہا گیا کہ فرقہ پرستی اور دہشت گردی ملک کو درپیش بدعنوانی سے بھی بڑے مسائل ہیں، آپ کو ان پر بھی توجہ دینی چاہئے اور کارگر مہم چلانی چاہئی، لیکن اناہزارے یا ان کی ٹیم کے کسی بھی رکن نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ رام لیلا میدان میں بدعنوانی کے خلاف تاریخ ساز احتجاج کے بعد محض ایک ہفتہ کے اندر ہی دہلی ہائی کورٹ کے سامنے بم دھماکہ ہوا۔ اس کے بعد ایک مہینہ کے اندر ہی متعدد مقامات پر فرقہ وارانہ فسادات یا کشیدگی کے معاملے منظرعام پر آئی۔ کہیں بھی اناہزارے یا ان کی ٹیم کا ممبر نظر نہیں آیا۔ ان کا یک نکاتی پروگرام تھا بدعنوانی کے خلاف مہم، جو ہریانہ میں حصار بائی الیکشن تک پہنچتے پہنچتے کانگریس مخالف مہم میں تبدیل ہوگئی۔ اب کانگریس میں اناہزارے کے خلاف یہ آوازیں اٹھنے لگیں کہ وہ سنگھ پریوار یا بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لئے ان کے اشارے پر چل رہے ہیں۔ موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر تین انا کے لئے اور بھی پریشانی کھڑی کردی کہ اناہزارے کے ابھییان میں آر ایس ایس کے کاریہ کرتا شامل تھی۔ اناہزارے یا ان کی ٹیم آر ایس ایس یا بھارتیہ جنتا پارٹی کے نزدیک بھی دکھائی دینا نہیں چاہتی اور کانگریس کی مخالفت بھی کرنا چاہتی ہی۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کانگریس کی مخالفت کا فائدہ کس کو ہوگا، مگر انہیں کانگریس کے خلاف لڑتے ہوئے دکھائی دینے کے ساتھ ساتھ خود کو سیکولر بھی دکھانا ہی۔ اگر اناہزارے اور ان کی ٹیم بدعنوانی کے خلاف اپنی مہم کے ایجنڈے میں فرقہ پرستی کی مخالفت کا ایشو بھی شامل کرلیتی تو پھر انہیں گجرات میں نریندرمودی کے خلاف بھی بولنا پڑتا۔ 6دسمبر992کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک بھر میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف بھی بولنا پڑتا۔ لال کرشن اڈوانی کی پچھلی رتھ یاترا جس کے نتیجہ میں متعدد مقامات پرفرقہ وارانہ فسادات ہوئی، اس کے خلاف بھی بولنا پڑتا، جو سیدھے سیدھے بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخالفت میں ہوتا۔ شاید اناہزارے اور ان کی ٹیم بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے سے بچنا چاہتی تھی، کیونکہ یہ آنے والے کل میں ان کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ بن سکتے تھی، لہٰذا ٹیم انا کوئی بھی جوکھم نہیں لینا چاہتی تھی۔اسی طرح دہشت گردی کے ایشو کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرلینے کے بعد ہیمنت کرکرے کے انکشافات نے سنگھ پریوار کے جس چہرے کو سامنے رکھا، اس پر بولنا پڑتا۔ سوامی اسیمانند کے اعتراف جرم، جس میں مکہ مسجد بم بلاسٹ، درگاہ اجمیر بم بلاسٹ، سمجھوتہ ایکسپریس اور مالیگاؤں بم بلاسٹ کو سنگھ پریوار کی منظم سازش قرار دیا، لہٰذا سنگھ کے خلاف بھی بولنا پڑتا۔ شاید اناہزارے اور ان کی ٹیم سنگھ پریوار کے خلاف نہیں بولنا چاہتی تھی، اس لئے کہ انہیں اپنی مہم چلانے کے لئے کسی نہ کسی شکل میں سنگھ پریوار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے تعاون اور اس کی حمایت کی بھی ضرورت تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیم انا کے اس یک نکاتی پروگرام میں کشمیر کے ایشو پر بولنے کی گنجائش کہاں سے نکل آئی۔ اچانک ایسی کیا ضرورت پیش آئی کہ پرشانت بھوشن کو کشمیر ایشو پر بولنا پڑا۔ کشمیر کا ایشو کوئی تازہ مسئلہ تو ہے نہیں۔ حال ہی میں ایسا کوئی ڈیولپمنٹ بھی نہیں تھا کہ کشمیر ایشو پر بولنا ضروری ہوگیا تھا۔ ارون دھتی رائے کے بیان پر جب ہنگامہ چل رہا تھا، اسی وقت پرشانت بھوشن، ارون دھتی رائے کے بیان کی پرزور حمایت کردیتی، ان کا موقف سامنے آجاتا۔ کیا اب ٹیم انا بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار کے ناپسندیدہ موضوع پر بول کر یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ صرف کانگریس کے ہی نہیں، کچھ معاملات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے موقف کے بھی خلاف ہیں۔ پرشانت بھوشن پر حملہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہی۔ اس کی ہر لحاظ سے مذمت کی جانی چاہئی، مگر اس حملہ سے نقصان کسی کا نہیں ہوگا۔ پرشانت بھوشن کی امیج کو اور بھی طاقت ملے گی، انہیں کھلے ذہن کا شہری تصور کیا جائے گا۔ ان کی حفاظت کا معقول انتظام بھی اب حکومت کو کرنا ہوگا۔ حادثہ کے فوراً بعد اناہزارے کا یہ مطالبہ بھی سامنے آگیا، جسے حکومت کو تسلیم کرہی لینا چاہئی۔ حملہ کرنے والے اندرورما کو بھی کچھ خاص نقصان نہیں ہوگا۔ نیوزچینلوں پر جس طرح اس کے بیان کو دکھایا جارہا ہی، اس سے اس کی وطن سے محبت کرنے والے ایک جوشیلے نوجوان کی تصور ابھرتی ہی۔ پرکاش جاوڑیکر نے حادثہ کے فوراً بعد اپنے بیان میں گو ل مول لفظوں میں کہہ دیا کہ کانگریس جن حالات سے گزررہی ہی، ایسے میں کچھ بھی کرسکتی ہے اور کانگریس کے دگ وجے سنگھ کو ایک بار پھر سنگھ پریوار اور بھارتیہ جنتا پارٹی پر حملہ کرنے کا موقع مل گیا ہی۔ مگر یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ اناہزارے اور ان کی ٹیم جو بدعنوانی کے علاوہ اور کسی بھی موضوع پر گفتگو کرہی نہیں رہی تھی، آخر اسے کشمیر کے ایشو پر بولنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کیا یہ مان لیا جائے کہ اب اناہزارے اور ان کی ٹیم دیگر موضوعات پر بھی آواز اٹھانے کا ذہن بناچکی ہے اور جلد ہی اب فرقہ پرستی اور دہشت گردی کے خلاف بھی وہ آواز اٹھائیں گے یا پھر پرشانت بھوشن کے ساتھ مارپیٹ کا یہ واقعہ ٹیم انا کی تحریک میں کوئی نیا موڑ لے کر آئے گا۔
٭٭
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیم انا کے اس یک نکاتی پروگرام میں کشمیر کے ایشو پر بولنے کی گنجائش کہاں سے نکل آئی۔ اچانک ایسی کیا ضرورت پیش آئی کہ پرشانت بھوشن کو کشمیر ایشو پر بولنا پڑا۔ کشمیر کا ایشو کوئی تازہ مسئلہ تو ہے نہیں۔ حال ہی میں ایسا کوئی ڈیولپمنٹ بھی نہیں تھا کہ کشمیر ایشو پر بولنا ضروری ہوگیا تھا۔ ارون دھتی رائے کے بیان پر جب ہنگامہ چل رہا تھا، اسی وقت پرشانت بھوشن، ارون دھتی رائے کے بیان کی پرزور حمایت کردیتی، ان کا موقف سامنے آجاتا۔ کیا اب ٹیم انا بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار کے ناپسندیدہ موضوع پر بول کر یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ صرف کانگریس کے ہی نہیں، کچھ معاملات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے موقف کے بھی خلاف ہیں۔ پرشانت بھوشن پر حملہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہی۔ اس کی ہر لحاظ سے مذمت کی جانی چاہئی، مگر اس حملہ سے نقصان کسی کا نہیں ہوگا۔ پرشانت بھوشن کی امیج کو اور بھی طاقت ملے گی، انہیں کھلے ذہن کا شہری تصور کیا جائے گا۔ ان کی حفاظت کا معقول انتظام بھی اب حکومت کو کرنا ہوگا۔ حادثہ کے فوراً بعد اناہزارے کا یہ مطالبہ بھی سامنے آگیا، جسے حکومت کو تسلیم کرہی لینا چاہئی۔ حملہ کرنے والے اندرورما کو بھی کچھ خاص نقصان نہیں ہوگا۔ نیوزچینلوں پر جس طرح اس کے بیان کو دکھایا جارہا ہی، اس سے اس کی وطن سے محبت کرنے والے ایک جوشیلے نوجوان کی تصور ابھرتی ہی۔ پرکاش جاوڑیکر نے حادثہ کے فوراً بعد اپنے بیان میں گو ل مول لفظوں میں کہہ دیا کہ کانگریس جن حالات سے گزررہی ہی، ایسے میں کچھ بھی کرسکتی ہے اور کانگریس کے دگ وجے سنگھ کو ایک بار پھر سنگھ پریوار اور بھارتیہ جنتا پارٹی پر حملہ کرنے کا موقع مل گیا ہی۔ مگر یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ اناہزارے اور ان کی ٹیم جو بدعنوانی کے علاوہ اور کسی بھی موضوع پر گفتگو کرہی نہیں رہی تھی، آخر اسے کشمیر کے ایشو پر بولنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کیا یہ مان لیا جائے کہ اب اناہزارے اور ان کی ٹیم دیگر موضوعات پر بھی آواز اٹھانے کا ذہن بناچکی ہے اور جلد ہی اب فرقہ پرستی اور دہشت گردی کے خلاف بھی وہ آواز اٹھائیں گے یا پھر پرشانت بھوشن کے ساتھ مارپیٹ کا یہ واقعہ ٹیم انا کی تحریک میں کوئی نیا موڑ لے کر آئے گا۔
٭٭