Wednesday, April 6, 2011

مالیگاؤں ملزمان کی رہائی ہوئی مشکل، بدل گیا اسیمانند کا بیان

عزیز برنی

اسیمانند کے بیان کا بقیہ حصہ مجھے آج قارئین کی خدمت میں پیش کرنا ہی، حالانکہ یہ تسلسل میں چار روز قبل ہی قارئین کی خدمت میں پیش کردیا جاناچاہئے تھا، مگر کرکٹ ورلڈ کپ میں ہندوستان کی شاندار فتح اور چندناگزیر وجوہات کی بنا پر یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ بیان کا ابتدائی حصہ ہم 3اپریل011کی اشاعت میں قارئین کی خدمت میں پیش کرچکے ہیں۔ ابتدائی حصہ کے مقابلہ آج کا اختتامی حصہ کہیں زیادہ اہم ہی، جو ہم آج کی تحریر کے شروعاتی جملوں کے بعد آپ کی خدمت میں پیش کرنے جارہے ہیں۔ اسیمانند نے اپنے بیان کی شروعات میں اپنی ذاتی زندگی پر روشنی ڈالی تھی۔ کہاں، کس گھر خاندان میں پیدا ہوئی، بچپن کس طرح گزارا، مذہبی خیالات نے کب ان کے دل و دماغ میں جگہ بنائی، سوامی وویکانند کی شخصیت سے متاثر ہونا، آدی واسیوں کی خدمت کا جذبہ دل میں پیدا ہونا، بچپن ہی سے سنگھ پریوار سے وابستگی، پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے باقاعدہ ان کی تحریک میں شامل ہونا۔ اقبالیہ بیان کا باقی حصہ پیش کرنے سے قبل ہم اس ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں گی۔ ابھی ہم اس نتیجہ پر نہیں پہنچنا چاہتے کہ اسیمانند نے 18دسمبر010 کو مجسٹریٹ دیپک دباس کی عدالت میں جو بیان دیا، وہ بغیر کسی دباؤ کے تھا یا دباؤ کے تحت دیا گیا۔ جہاں تک ابتدائی زندگی کے حالات کا تعلق ہے تو اس میں پولیس کی کیا دلچسپی ہوسکتی ہے اور اگر یہ بیان دباؤ میں دلوایا گیا، کیا پولیس کو اس بات کی ضرورت تھی کہ اسیمانند کے بیان میں ان کی ابتدائی زندگی کے وہ پہلو سامنے رکھیں، جن کا بم دھماکوں کے کیس سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ سنگھ پریوار سے ان کے قریبی رشتے رہی۔ لیکن004سے پہلے کے قریبی رشتے اس نوعیت کے نہیں تھے کہ انہیں قابل اعتراض کہا جاسکے اور وہ تمام باتیں جو اقبالیہ بیان کے ابتدائی حصہ میں تھیں، پولیس کی اطلاعات سے کہیں زیادہ خود اسیمانند کی جانکاری پر ہی مبنی نظر آتی ہیں۔ اپنی زندگی میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنی، آدی واسیوں کی خدمت میں کام کرنے کے سلسلہ میں وہ کہاں کہاں گئی، کتنے روز کہاں رکی، یہ سب پولیس کی دلچسپی کا موضوع نہیں ہوسکتا تھا، اس لئے کہ نہ تو اس دوران کسی مجرمانہ سرگرمی سے ان کا کوئی تعلق رہا اور نہ اس دوران کوئی ایسا شخص ان کی زندگی میں آیا، جس سے کہ پولیس نے ان پر نظر رکھنی شروع کی ہوتی۔ جنوری003کے بعد کے جو واقعات ملتے ہیں، جب ان کی سادھوی پرگیہ سنگھ سے ملاقات ہوئی اور یہ بات انہیں جینتی بھائی کیوٹ کے ذریعہ معلوم ہوئی کہ سادھوی پرگیہ سنگھ ان سے ملنا چاہتی ہی۔ اس سے پہلے اکتوبر002تک آدی واسیوں کی خدمت کے لئے 9دن تک ضلع ڈانگ میں انہوں نے شبری کمبھ کے نام سے کیمپ چلایا، تب تک ایسی کسی بھی مشتبہ سرگرمی سے اسیمانند کی وابستگی ظاہر نہیں ہوتی۔ اکتوبر002 کے ’’شبری کمبھ آیوجن‘‘ کے دوران ہی آر ایس ایس کے ان کارکنان سے اسیمانند کی ملاقات نظر آتی ہی، جن سے آگے چل کر بم دھماکوں کا رشتہ جڑتا ہی، لیکن اکتوبر002سے پہلے تک پولیس کے ذریعہ اسیمانند پر نظر رکھے جانے کی کوئی وجہ نہیں ملتی۔ اس سے پہلی کی زندگی کے بارے میں انہوں نے جو بھی بتایا ہی، وہ سب کچھ اسیمانند کی خود کی جانکاری پر ہی منحصر نظر آتا ہی۔
اب پیش ہے اسیمانند کے بیان کا بقیہ حصہ، اس کے بعد گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا:
’’اس کے دوتین مہینے بعد ایک فون آیا کہ سنیل آپ کو فون کرنے کی کوشش کررہا ہی، لیکن فون نہیں لگ رہا ہے اورایک دودن میں وہ آپ کے پاس آکر ملے گا۔دوتین دن بعد سنیل میرے پاس آیا اور اس کے ساتھ میں دو لڑکے تھے جن کے نام راج اور میہُل تھی۔راج اور میہُل شبری دھام میںسنیل کے ساتھ پہلے بھی تین چار بار آچکے تھی۔سنیل نے مجھے بتایاکہ اجمیر میںجو بم دھماکہ ہواہی، وہ ہمارے لوگوں نے ہی کیاہی۔سنیل نے یہ بھی بتایا کہ وہ بھی وہاںپر تھا۔میں نے سنیل سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ اور کون لوگ تھی۔سنیل نے مجھے بتایا کہ ہمارے ساتھ اور دومسلمان لڑکے تھی۔میں نے سنیل جوشی سے یہ پوچھا کہ مسلم لڑکے تمہیں کیسے ملے تو سنیل جوشی نے کہا کہ لڑکے اندریش جی نے دیے تھی۔میں نے سنیل جوشی کو بتایا کہ اندریش جی نے اگر آپ کو مسلم لڑکے دیے ہیں تو آپ جب پکڑے جائیں گے تو اندریش جی کا نام بھی آسکتاہی۔میں نے سنیل جوشی کو کہا کہ اس کو اندریش جی سے جان کا خطرہ ہی۔میں نے سنیل جوشی کویہ بھی کہا کہ تم نے مسلمان لڑکوں سے کام کروایا ہے توتمہیں مسلمانوں سے بھی اپنی جان کا خطرہ ہی۔میں نے سنیل جوشی کو کہا کہ تم کہیں مت جائو بلکہ یہیں پر رکو۔سنیل جوشی نے مجھے بتایا کہ اسے دیواس (مدھیہ پردیش) میں کچھ کام ہے اور وہ جلد جاکر جلد ہی واپس آجائے گا۔سنیل نے کہا کہ راج اور میہُل کو وہ وہیں پر چھوڑ کر جائے گا۔سنیل جوشی نے یہ بھی بتایا کہ راج او رمیہُل بڑودہ بیسٹ بیکری واقعہ میں بھی مطلوب ہیں۔میں نے سنیل کو کہا کہ بیسٹ بیکری واقعہ بھی گجرات کا ہے او رشبری دھام بھی گجرات میں ہی، اس لیے ان کو یہاں رکھنا ٹھیک نہیںہے ،اس لیے یہاں سے انہیں لے جائو۔سنیل جوشی ان دونوںکو لے کر دوسرے دن دیواس (مدھیہ پردیش) نکل گیا۔اس کے کچھ دن بعد بھرت بھائی کا فون آیا کہ خبر ملی ہے کہ سنیل جوشی کا قتل ہوگیاہی۔میں نے اسی دن کرنل پروہت کو فون کیا اور بتایا کہ سنیل جوشی کا قتل ہوگیا ہے جو اجمیر بم دھماکہ میں شامل تھا ۔میں نے کرنل پروہت کو کہا کہ تم تو انٹلی جنس میں ہو ، پتہ کرکے بتائو کہ سنیل جوشی کا قتل کس نے کیاہی۔کرنل پروہت نے مجھے بعد میں بتایاکہ سنیل جوشی نے پہلے بھی قتل کیا تھا اور ایسا لگتا ہے کہ اسی کا بدلہ اس سے لیا گیا ہی۔
2005میں شبری دھام میں اندریش جی جو آرایس ایس کی ورکنگ کمیٹی کے رکن ہیں،ہمیں ملے تھی۔ان کے ساتھ آرایس ایس کے سبھی بڑے عہدیداران تھی۔آرایس ایس کے سو رت اجلاس کے بعد سبھی شبری دھام کے درشن کے لیے آئے تھی۔اس کے بعد پمپا سروور میں جہاں شبری کمبھ کا انعقاد ہورہا تھا، وہا ں ایک ٹینٹ میں اندریش جی ہم کو ملے تھی۔اس وقت سنیل جوشی بھی وہاں پر تھی۔اندریش جی نے ہمیں بتایاکہ آپ جو بم کا جواب بم سے دینے کی بات کرتے ہو، وہ آپ کا کام نہیں ہی۔آرایس ایس سے آپ کو حکم ملاہے کہ آدی واسیوں کے درمیان میں کام کرواور بس اتنا ہی کرو۔انہوں نے اوربتایا کہ آپ جو سوچ رہے ہیں ہم لوگ بھی اس موضوع پر سوچتے ہیں ۔سنیل کو اس کام کے لیے ذمہ داری دی گئی ہی۔اندریش جی نے کہا کہ سنیل کو جو مدد چاہیی، وہ ہم کریں گی۔
مجھے یہ بھی پتہ چلا تھا کہ سنیل جوشی بھرت بھائی کے ساتھ ناگ پور میںاندریش جی سے ملے تھے اور اندریش جی نے بھرت بھائی کے سامنے سنیل کو 50,000روپے دیے تھی۔کرنل پروہت نے بھی ایک بارمجھے بتایاتھا کہ اندریش جی آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہیں او راس کے پورے کا غذی ثبوت ان کے پاس موجود ہیں،لیکن کرنل پروہت نے مجھے وہ کاغذات کبھی نہیں دکھائی۔
اپریل 2008میں بھوپال میں ابھینوبھارت کی ایک بڑی میٹنگ ہوئی تھی۔اس میٹنگ میں پرگیہ سنگھ ٹھاکر،بھرت بھائی،کرنل پروہت، دیانندپانڈی،سدھاکرچترویدی،سمیرکلکرنی،ہمانی ساورکر، تپن گھوش، ڈاکٹر آرپی سنگھ،راجیشور سنگھ وغیرہ موجودتھی۔اس میٹنگ میں میں نے بم کا جواب بم سے دینے کی تجویز رکھی تھی۔وہاں ابھینو بھارت کی ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں پرشانت وغیرہ کا انتخاب ہوا ۔جنوری 2007میں بھی ابھینوبھارت کی ایک میٹنگ میں ،میں کرنل پروہت سے ملا تھا۔پونے میں بھی کرنل پروہت کے ساتھ میں ایک میٹنگ میں موجود تھا۔
اکتوبر008میں سندیپ ڈانگے کا فون میرے پاس آیا ، میں اس وقت شبری دھام میں ہی تھا ۔سندیپ نے مجھے بتایا کہ وہ ویاراواس جگہ پر ہے اور شبری دھام آنا چاہتاہے او ردوچار دن رکنا چاہتا ہی۔میں نے اسے بتایا کہ میں ابھی ناڈیاڈ جانے کی تیاری میں ہوں اور میرے نہ ہونے سے اس کا وہاں رہنا مناسب نہیں ہوگا۔سندیپ نے کہا کہ آپ اگر نانڈیاڈ جارہے ہیں تو ہمیں بھی لے کر چلیے ہم بڑودہ تک آپ کے ساتھ جائیں گی۔میں اپنی سینٹروکار میں شبری دھام سے ویارا بس اسٹینڈ پر آیا۔سندیپ کے ساتھ ایک اور آدمی تھا اور وہ دونوں بڑی جلدی اور ہڑبڑی میں میری گاڑی میں بیٹھ گئی،جن کے پاس دو تین وزنی سامان کے بیگ بھی تھی۔میں نے ان سے پوچھا کہ کہاں سے آرہے ہو، انہو ںنے کہا کہ مہاراشٹر سے آرہے ہیں۔وہ ٹھیک سے بات نہیں کرپارہے تھی۔میں ان کو لے کر راج پپلا ہوکر بڑودہ راج پپلا روڈ کے جنکشن تک لے کر آیا۔وہ لوگ جنکشن پر اتر گئی۔مجھے بعد میں احساس ہوا کہ وہ دونوں مالیگائوں بم دھماکہ کے اگلے دن ہی مجھے وہاں ملے تھی۔سندیپ کے ساتھ میں جو دوسرا آدمی تھا مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا نام رام جی تھا۔
بم دھماکہ کے ہرواقعہ سے قبل یا ایک دودن بعد سنیل مجھے بتاتاتھا کہ یہ ہمارے لوگوں نے کیا ہی، لیکن مالیگائوں کے 2008کے دھماکہ تک سنیل کا قتل ہوچکاتھااورمجھے بعدمیں پتہ چلا کہ مالیگائوں بم دھماکہ بھی ہمارے لوگوں نے ہی کیا تھا۔جب تک سنیل زندہ تھا سبھی بم دھماکے ہم لوگوں نے مل کر کیی، لیکن اب مجھے لگتاہے کہ ہم نے جو بھی کیا وہ غلط کیا۔مجھے اندر سے بہت اذیت ہورہی تھی، اس لیے میں نے یہ قبول کیا ہے ۔میںاورکچھ نہیں کہنا چاہتا۔ ‘‘
مندرجہ بالا اقبالیہ بیان میں جو باتیں انتہائی اہم ہیں، وہ ہیں سنیل جوشی کی بم دھماکوں سے وابستگی۔ مالیگاؤں بم دھماکوں کی ملزم اور رام سنگھ سے ملاقات کا ذکر اور سنیل جوشی کے حوالہ سے آر ایس ایس کے سینئررکن اندریش کا ذکر۔ جب اندریش کا نام سامنے آیا تھا، تب سنگھ پریوار کے خیمہ میں زبردست ہلچل پیدا ہوئی تھی۔ یہ مالیگاؤں بم دھماکوں کی تفتیش کررہے شہید ہیمنت کرکرے کے ذریعہ ہی سامنے آگیا تھا، جس میں آئی ایس آئی سے ان کے رشتوں کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔ یہی بات اسیمانند کے اقبالیہ بیان میں سامنے آئی، لہٰذا اقبالیہ بیان کے اس حصہ میں اندریش کا ذکر ایک ایسا پہلو ہی، جس پر آگے بھی بحث کی ضرورت باقی ہی۔ دوسری اہم بات سنیل جوشی کا اجمیردرگاہ، مکہ مسجد بم بلاسٹ اور سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکوں میں ان کے اپنے لوگوں کا ہاتھ بتایا جانا، یعنی سنگھ پریوار سے ان کے تعلق کا اشارہ۔ سنیل جوشی کا قتل کیا جاچکا ہی، سنیل جوشی کے قتل کردئے جانے کا اندیشہ سوامی اسیمانند کو بھی تھا اور انہوں نے سنیل جوشی کو اس خطرے سے آگاہ بھی کیا تھا۔ اسیمانند نے سنیل جوشی کو اندریش سے اپنی جان کا خطرہ بتایا تھا اور ان مسلم لڑکوں سے بھی جو بم دھماکوں میں شامل تھے اور اندریش کے ذریعہ بھیجے گئے تھی۔ اب تین باتیں انتہائی اہم ہیں، جو اس بیان کے بدلنے کی وجہ بھی ہوسکتی ہیں۔ سنیل جوشی کا مندرجہ بالا بم دھماکوں میں ملوث ہونا، بعد میں اس کا قتل ہوجانا، بقول اسیمانند سنیل جوشی کی جان کو اندریش سے خطرہ ہونا۔ ظاہر ہے یہ تفتیش اس سمت میں آگے بڑھتی ہے اور جو باتیں اسیمانند نے کہی ہیں، وہ ثابت ہوتی ہیں تو شک کے دائرے میں اندریش کے آنے کو روکا نہیں جاسکتا۔ ظاہر ہے سنگھ پریوار کے لئے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہی۔ اب اگر یہ بیان سوامی اسیمانند نے پہلے کسی دباؤ کے بعد دیا تھا تو اس کی نوعیت ایک دم مختلف ہوجاتی ہے اور اسی طرح اگر بعد میں دیا گیا بیان دباؤ کی وجہ سے ہے تو بھی اس کیس پر گہرا اثر پڑتا ہی۔ مالیگاؤں بم دھماکوں کے سلسلہ میں رہائی کی آس لگائے مسلم نوجوانوں کے لئے دقت پیدا ہوسکتی ہی۔ یہ قانونی پہلو ہی، جس پر ہم مشہوروکیل مجیدمیمن سے گفتگو کررہے ہیں، ان سے بات چیت کے بعد ایک بار پھر اس موضوع پر اور اس اقبالیہ بیان کے مضمرات پر گفتگو کی جائے گی، لیکن آج کے مضمون میں بس اتنا ہی۔
…………

मालेगांव आरोपियों की रिहाई हुई मुश्किल, बदल गया असीमानन्द का बयान
अज़ीज़ बर्नी

असीमानन्द के बयान का शेष भाग मुझे आज पाठकों की सेवा में पेश करना है, हालांकि यह क्रमानुसार 4 दिन पूर्व ही पाठकों की सेवा में पेश कर दिया जाना चाहिए था, परन्तु क्रिकेट विश्व कप में भारत की शानदार जीत और कुछ अपरिहार्य कारणों से यह सम्भव नहीं हो सका। बयान का आरम्भिक भाग हम 3 अप्रैल 2011 के प्रकाशन में पाठकों की सेवा में पेश कर चुके हैं। आरम्भिक भाग के मुक़ाबले आज का अन्तिम भाग कहीं अधिक महत्वपूर्ण है, जो हम आज के लेख के आरम्भिक वाक्यों के बाद आपकी सेवा में पेश करने जा रहे हैं। असीमानन्द ने अपने बयान के आरम्भ में अपने निजी जीवन पर प्रकाश डाला था। कहाँ, किस घर-परिवार में पैदा हुए, बचपन किस तरह बिताया, धार्मिक विचारधारा ने कब उनके दिल व दिमाग़ में जगह बनाई, स्वामी विवेकानन्द के व्यक्तिव से प्रभावित होना, आदिवासियों की सेवा भावना का दिल में पैदा होना, बचपन ही से संघ परिवार से संलग्नता, फिर उच्च शिक्षा प्राप्त करके नियमित रुप से उनके आन्दोलन में शामिल होना। इक़बालिया बयान का शेष भाग पेश करने से पूर्व इस आरम्भिक जीवन के बारे में कुछ कहना चाहेंगे। अभी हम इस निष्कर्ष पर नहीं पहुंचना चाहते कि असीमानन्द ने 18 दिसम्बर 2010 को मैजिस्ट्रेट दीपक दबास की अदालत में जो बयान दिया, वह बिना किसी दबाव के था या दबाव के तहत दिया गया। जहां तक आरम्भिक जीवन के हालात का सम्बंध है तो उसमें पुलिस की क्या रुचि हो सकती है और अगर यह बयान दबाव में दिलवाया गया, क्या पुलिस को इस बात की आवश्यकता थी कि असीमानन्द के बयान में उनके जीवन के आरम्भ के वह पहलू सामने रखे जिनका उनके केस से कोई सम्बंध साबित नहीं होता, सिवाए इसके कि संघ परिवार से उनके नज़दीकी सम्बंध रहे। लेकिन 2004 से पूर्व के नज़दीकी सम्बंध इस प्रकार के नहीं थे कि उन्हें आपŸिाजनक कहा जा सके और वे तमाम बातें जो इक़बालिया बयान के आरम्भिक भाग में थीं, पुलिस की सूचनाओं से कहीं अधिक ख़ुद असीमानन्द की जानकारी पर ही आधारित नज़र आती हैं। अपने जीवन की आरम्भिक शिक्षा प्राप्त करने, आदिवासियों की सेवा में काम करने के सिलसिले में वह कहां कहां गए, कितने दिन कहां रुके, यह इस दौरान पुलिस की रुचि का विषय नहीं हो सकता था, इसलिए कि न तो इस दौरान किसी आपराधिक गतिविधि से उनका कोई सम्बंध रहा और न इस बीच कोई ऐसा व्यक्ति उनके जीवन में आया, जिससे कि पुलिस ने उन पर नज़र रखनी शुरु की होती। जनवरी 2003 के बाद की जो घटनाएं मिलती हैं, जब उनकी साध्वी प्रज्ञा सिंह से मुलाक़ात हुई और यह बात उन्हें ज्यंतीभाई केवट द्वारा मालूम हुई कि साध्वी प्रज्ञा सिंह उनसे मिलना चाहती है, इससे पूर्व अक्तूबर 2002 तक आदिवासियों की सेवा के लिए 9 दिन तक डांग ज़िला में उन्होंने शबरी कुंभ के नाम से कैम्प चलाया, तब तक ऐसी किसी भी संदिग्ध गतिविधि से असीमानन्द की संलग्नता ज़ाहिर नहीं होती। अक्तूबर 2002 के ”शबरी कुंभ आयोजन“ के बीच ही आर.एस.एस के उन सदस्यों से असीमानन्द की मुलाक़ात नज़र आती है, जिनसे आगे चल कर बम धमाकों का सम्बंध जुड़ता है, लेकिन अक्तूबर 2002 से पूर्व तक पुलिस द्वारा असीमानन्द पर नज़र रखे जाने का कोई कारण नहीं मिलता। इससे पूर्व के जीवन के बारे में उन्होंने जो भी बताया है यह सब कुछ असीमानन्द की स्वंय की जानकारी पर ही आधारित नज़र आता है।
अब प्रस्तुत है असीमानन्द के बयान का शेष भाग, उसके बाद गुफ़्तगू का सिलसिला जारी रहेगाः
”उसके 2-3 महीने बाद सुनील का फिर फ़ोन आया कि दोबारा कहा, भरत भाई का फ़ोन आया है सुनील आपसे फ़ोन लगाने का प्रयास कर रहा है लेकिन फोन नहीं लग रहा और एक दो दिन में वो आपके पास आकर मिलेगा। दो तीन दिन बाद सुनील मेरे पास आया और उसके साथ में दो लड़के थे जिसके नाम राज और मेहुल थे। राज और मेहुल शबरी धाम में सुनील के साथ पहले भी तीन चार बार आ चुके थे। सुनील ने मुझे बताया कि अजमेर में जो बम कांड हुआ है वो हमारे लोगों ने ही किया है। सुनील ने यह भी बताया कि वो भी वहां पर था। मैंने सुनील से पूछा कि आपके साथ और कौन-कौन थे। सुनील ने मुझे बताया कि हमारे साथ और दो मुस्लिम लड़के थे। मैंने सुनील जोशी से यह पूछा कि मुस्लिम लड़के तुम्हें कैसे मिले तो सुनील जोशी ने कहा कि लड़के इंद्रेश जी ने दिये थे। मैंने सुनील जोशी को बताया कि इंदे्रश जी ने अगर आपको मुस्लिम लड़के दिये हैं तो आप जब पकड़े जायेंगे तो इंद्रेश जी का नाम भी आ सकता है। मैंने सुनील जोशी को कहा कि उसको इंदे्रश जी से जान का ख़तरा है। मैंने सुनील जोशी को यह भी कहा कि तुमने मुस्लिम से काम करवाया है तो तुम्हें मुस्लिम से भी अपनी जान का ख़तरा है। मैंने सुनील जोशी को कहा कि तुम कहीं मत जाओ यहीं पर रुको। सुनील जोशी ने मुझे बताया कि उसे देवास, मध्य मप्र में कुछ काम है और वो जल्दी जाकर जल्दी वापस आ जायेगा। सुनील ने कहा कि राज और मेहुल को वो वहीं पर छोड़ कर जायेगा। सुनील जोशी ने यह भी बताया कि राज और मेहुल बड़ौदा बैस्ट बैकरी केस में भी वांटेड हैं। मैंने सुनील को कहा कि बैस्ट बैकरी केस भी गुजरात का है और शबरी धाम भी गुजरात में है इसलिए इनको यहां रखना ठीक नहीं है। इसलिए यहां से इन्हें ले जाओ। सुनील जोशी उन दोनों को लेकर दूसरे दिन देवास मप्र निकल गया। इसके कुछ दिन बाद भरत भाई का फ़ोन आया कि ख़बर मिली है कि सुनील जोशी का मर्डर हो गया है। मैंने उसी दिन कर्नल पुरोहित को फोन किया और बताया कि सुनील जोशी नाम के हमारे लड़के का मर्डर हो गया है जो अजमेर बम ब्लास्ट में शािमल थे। मैंने कर्नल पुरोहित को कहा कि तुम तो इंटेलिजेंस में हो तो पता करके बताओ कि सुनील जोशी का मर्डर किसने किया है। कर्नल पुरोहित ने मुझे बताया बाद में कि सुनील जोशी ने पहले भी मर्डर किया था और ऐसा लगता है कि उसी का बदला उससे लिया गया है।
2005 में शबरीधाम में इंद्रेश जी जो आरएसएस की कार्यकारिणी समिति के सदस्य हैं हमें मिले थे। उनके साथ में आरएसएस के सभी बड़े पदाधिकारी थे। आरएसएस की सूरत की बैठक के बाद सभी शबरीधाम के दर्शन के लिए आये थे। उसके बाद पंपा सरोवर में जहां शबरी कुंभ का आयोजन हो रहा था। वहां एक टैंट में इंदे्रश जी हमको मिले थे। उस समय सुनील जोशी भी वहां पर थे। इंदे्रेश जी ने हमको बताया कि आप जो बम का जवाब बम की बात करते हो वह आपका काम नहीं है। आरएसएस से आपको आदेश मिला है कि आदिवासियांें के बीच में काम करो बस उतना ही करो। उन्होंने और बताया कि आप जो सोच रहे हैं हम लोग भी इस विषय पर सोचते हैं। सुनील को इस काम के लिए जिम्मेदारी दी गई है। इंद्रेश जी ने कहा कि सुनील को जो मदद चाहिए वो हम करेंगे।
मुझे यह भी पता चला था कि सुनील जोशी भरत भाई के साथ नागपुर में इंद्रेश जी से मिले थे और इंदे्रश जी ने भरत भाई के सामने सुनील को 50 हज़ार रुपये दिये थे। कर्नल पुरोहित ने भी एक बार मुझे बताया था कि इंदे्रश जी आई.एस.आई के एजेंट हैं और इसके पूरे डाकुमैंट्स उनके पास हैं। लेकिन कर्नल पुरोहित ने मुझे वह डाॅकुमैंट्स कभी नहीं दिखाए।
अप्रैल 2008 में भोपाल में अभिनव भारत की एक बड़ी मीटिंग हुई थी। उस मीटिंग में मैं, प्रज्ञा सिंह, भरत भाई, कर्नल पुरोहित, दयानंद पांडे, सुधाकर चतुर्वेदी, समीर कुलकर्णी, हिमानी सावरकर, तपन घोष, डा॰ आर.पी सिंह, राजेशवर सिंह आदि लोग मौजूद थे। उस मीटिंग में मैंने बम का जवाब बम से देने का प्रस्ताव रखा था। वहां अभिनव भारत की एक बाॅडी बनाई जिसमें प्रेज़िडेंट आदि का चुनाव हुआ। जनवरी 2007 में भी अभिनव भारत की एक मीटिंग में, मैं कर्नल पुरोहित से मिला था। पुणे में भी कर्नल पुरोहित के साथ मैं एक मीटिंग में उपस्थित था।
अक्तूबर 2008 में संदीप डांगे का फोन मेरे पास आया मैं उस समय शबरी धाम में ही था। संदीप ने मुझे बताया कि वह वियारा वास स्थान पर है और मैं शबरी धाम में आना चाहता हूं और दो चार दिन रुकना चाहता हूं। मैंने उसे बताया कि मैं अभी नाडियाड जाने की तैयारी में हूं और मेरे न होने से उसका वहां रहना उचित नहीं होगा। संदीप ने कहा कि आप अगर नाडियाड जा रहे हैं तो हमें भी लेकर चलिए हम बड़ौदा तक आपके साथ जायेंगे। मैं अपनी सैंट्रो कार में शबरी धाम से वियारा बस स्टैंड पर आया। संदीप के साथ एक और आदमी था और वो दोनोें बड़ी जल्दी और हड़बड़ी में मेरी गाड़ी में बैठ गये। उनके पास दो-तीन वज़न वाले सामान के बैग थे। मैंने उनसे पूछा कि कहां से आ रहे हो। उन्होंने कहा कि महाराष्ट्र से आ रहे हैं। वो ठीक से बात नहीं कर पा रहे थे। मैं उनको लेकर राजपीपला हो कर बड़ौदा राजपीपला रोड के जंक्शन तक लेकर आया। वो लोग जंक्शन पर उतर गये। मुझे बाद में एहसास हुआ कि वो दोनों मालेगांव बम ब्लास्ट के अगले दिन ही मुझे वहां मिले थे। संदीप के साथ में जो दूसरा आदमी था मुझे बाद में मालूम हुआ कि उसका नाम रामजी था।
बम ब्लास्ट की हर घटना से पहले या एक दो दिन बाद सुनील मुझे बताता था कि यह हमारे लोगों ने किया है लेकिन मालेगांव, 2008 के बम ब्लास्ट तक सुनील का मर्डर हो चुका था और मुझे बाद में पता चला कि मालेगांव 2008 का बम ब्लास्ट भी हमारे लोगों ने ही किया होगा। जब तक सुनील जिंदा था सब बम कांड हम लोगों ने मिलकर किये लेकिन अब मुझे लगता है कि हमने जो भी किया वो ग़लत किया। मुझे अन्दर से बहुत पीड़ा हो रही थी। इसलिए मैंने यह क़बूल किया है। मैं और कुछ नहीं कहना चाहता।“
उपरोक्त इक़बालिया बयान में जो बातें अत्यंत महत्वपूर्ण हैं, वह हैं सुनील जोशी की बम धमाकों से संलग्नता। मालेगांव बम धमाकों की अभियुक्त और राम सिंह से मुलाक़ात का उल्लेख और सुनील जोशी के हवाले से आर.एस.एस के वरिष्ठ सदस्य इंद्रेश की चर्चा। जब इंद्रेश का नाम सामने आया था, तब संघ परिवार के ख़ेमें में ज़बरदस्त हलचल पैदा हो गई थी। यह मालेगांव बम धमाकों की जांच कर रहे शहीद हेमन्त करकरे के द्वारा ही सामने आ गया था, जिसमें आई.एस.आई से उनके सम्बंधों का हवाला भी दिया गया था। यही बात असीमानन्द के इक़बालिया बयान में सामने आई, इसलिए इक़बालिया बयान के इस भाग में इन्द्रेश की चर्चा एक ऐसा पहलू है जिस पर आगे भी बहस की ज़रुरत बाक़ी है। दूसरी महत्वपूर्ण बात सुनील जोशी का अजमेर दरगाह, मक्का मस्जिद बम ब्लास्ट और समझौता एक्सप्रेस धमााकों में उनके अपने लोगों का हाथ बताया जाना, अर्थात संघ परिवार से उनके सम्बंध का इशारा। सुनील जोशी की हत्या की जा चुकी है, सुनील जोशी की हत्या किए जाने की आशंका स्वामी असीमानन्द को भी थी और उन्होंने सुनील जोशी को इस ख़तरे से आगाह भी किया था। असीमानन्द ने सुनील जोशी को इन्दे्रश से अपनी जान का ख़तरा बताया था और उन मुस्लिम लड़कों से भी जो बम धमाकों में शामिल थे और इन्द्रेश के द्वारा भेजे गए थे। अब तीन बातें अत्यंत महत्वपूर्ण हैं, जो इस बयान के बदलने का कारण भी हो सकती हैं। सुनील जोशी का उपरोक्त बम धमाकों में लिप्त होना, बाद में उसकी हत्या हो जाना, असीमानन्द के अनुसार सुनील जोशी की जान को इन्द्रेश से ख़तरा होना। ज़ाहिर है जांच इसी दिशा में आगे बढ़ती है और जो बातें असीमानन्द ने कही हैं वे साबित होती हैं तो संदेह के दायरे में इन्दे्रश को आने से रोका नहीं जा सकता। ज़ाहिर है संघ परिवार के लिए यह कोई साधारण बात नहीं है। अब अगर यह बयान स्वामी असीमानन्द ने पहले किसी दबाव के बाद दिया था तो उसकी स्थिति एक दम भिन्न हो जाती है और इसी तरह अगर बाद में दिया गया बयान दबाव के कारण से है तो भी इस केस पर गम्भीर प्रभाव पड़ता है। मालेगांव बम धमाकों के सिलसिले में रिहाई की आस लगाए मुस्लिम युवकों के लिए दिक्कत पैदा हो सकती है। यह क़ानूनी पहलू है, जिस पर हम सुप्रसिद्व अधिवक्ता मजीद मेनन से गुफ़्तगू कर रहे हैं, उनसे बातचीत के बाद एक बार फिर इस विषय पर और इस इक़बालिया बयान से सम्बद्ध पहलुओं पर गुफ्तगू की जाएगी, लेकिन आज के लेख में केवल इतना ही।
...................................

Sunday, April 3, 2011

اس ٹیم کے فاتحانہ جذبہ کو سلام!

عزیز برنی

ایک دن کے لئے اس سلسلہ کو روکنا ہوگا، جو جاری تھا۔ میری مراد ’اسیمانند کے اقبالیہ بیان‘ سے ہے اور اس کی وجہ کوئی معمولی نہیں، جس کے لئے میں آج کے مضمون کی ابتدا اسیمانند کے بیان سے نہیں کرنا چاہتا۔ دراصل ہندوستانی کرکٹ ٹیم کا ورلڈ کپ جیتنا اپنے آپ میں بہت بڑی بات تھی۔ یہ بہت بڑی بات کئی معنوں میں ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میرے وہ قارئین جو میرے مضامین کا ریکارڈ رکھتے ہیں، انہیں اس ورلڈ کپ کی کامیابی پر میرے تاثرات پڑھنے اور یکجا کرنے کا موقع نہ ملی۔
میں نے پہلی بار یہ دیکھا کہ ایک ہی میچ کے لئے ایک ہی وقت میں ٹاس دو بار کیا گیا۔ شاید کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب میچ شروع ہونے سے قبل دونوں کپتانوں کے ذریعہ کئے گئے ٹاس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ موسم اور ماحول کا اثر اکثر میچ پر تو ہوتا رہا ہی، لیکن ٹاس پر یہ پہلی بار دیکھنے کو ملا کہ شور کی وجہ سے ریفری یہ سن نہیں پائے کہ سری لنکا کے کپتان نے کیا کہا ہی، مگر حیرانی کی بات یہ ہے کہ کیا خودسری لنکائی کپتان کمارسنگاکارا اور ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان مہندرسنگھ دھونی نے بھی نہیں سنا کہ دھونی کے سکے کی اچھال پر کمارسنگاکارا کی کال کیا تھی۔ اسٹیڈیم میں موجود سامعین کا شور اتنا تھا کہ کچھ بھی سنائی نہیں دے سکا۔ دونوں کپتان، میچ ریفری اور سکے کے اچھال کے وقت وہاں موجود روی شاستری، یہ سبھی اتنے ایکسائٹڈ تھے کہ ورلڈ کپ فائنل کی شروعات کے سب سے اہم مرحلہ میں ہی چوک ہوگئی۔ بہرحال ٹاس دوبارہ کیا گیا۔ ٹاس کا جیتنا ایک اہم بات تھی، دونوں کپتانوں میں سے کوئی بھی اس بات پر بضد کیوں نہیں ہوا کہ ایک بار ٹاس ہوچکا ہے اور وہ جیت چکا ہے تو دوسری بار کیوں۔ مہندرسنگھ دھونی کی باڈی لینگویج بتارہی تھی کہ پہلی بار سکے کے اچھال میں وہ جیت چکے تھی، میں اس وقت لائیو ٹیلی کاسٹ کے ساتھ ساتھ ’’اسٹارنیوز‘‘ بھی دیکھ رہا تھا۔ جہاں باربار اس منظرکو دکھایا گیا اور دیر تک اس موضوع پر بحث جاری رہی۔ مہندر سنگھ دھونی کا رویہ بہت مثبت تھا اور دوسری مرتبہ میں ٹاس ہار جانے کے بعد بھی ان کے چہرے پر کوئی ملال نظر نہیں آیا۔ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم فائدے میں نظر آرہی تھی، باوجود اس کے کہ مسٹر کول ’کول‘ ہی رہے اور اپنی ٹیم کے ساتھ میدان کی طرف کوچ کرگئی۔ ظہیر خان نے اپنے پہلے تینوں اوور لگاتار ’میڈن‘ رکھ کر اس بات کا اشارہ دیا کہ ورلڈ کپ جیتنے کے لئے یہ ٹیم جان لڑا دینے کا ارادہ رکھتی ہی۔ حالیہ کرکٹ ورلڈ کپ میں سری لنکا کے سلامی بلے باز اس پورے ٹورنامنٹ کے دوران سب سے بہتر جوڑی ثابت ہوئے اور انہیں پہلے دس اوور تک بہت خاموش رہنے اور احتیاط سے رن بنانے کے لئے مجبور کردینا ایک بہت بڑی بات ہی۔ اس درمیان ظہیر خان نے سری لنکائی سلامی بلے بازاُپل تھرنگا کو وکٹ کے پیچھے اپنے کپتان دھونی کے ہاتھوں کیچ کراکر سری لنکا کے بلے بازوں کو یہ احساس دلایا کہ ہندوستان کے خلاف کامیابی کے خواب کو شرمندئہ تعبیر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہی، تاہم آہستہ آہستہ سری لنکا مضبوطی کی طرف بڑھتا گیا۔ مہیلا جے وردھنے نے اپنی بہترین بلے بازی کے ذریعہ جیتنے لائق اسکور کھڑا کرلیا۔ آخری پانچ اوور میں سری لنکا کے بلے بازوں نے کمال کردیا۔ صرف0گیندوں میں 67رن بہت بڑی بات ہی۔ جب سری لنکا کی اننگ ختم ہوئی تو ان کا اسکور پانچ وکٹ پر 274رن تھا، یعنی ہندوستان کو جیت کے لئے 275رن درکار تھی۔ اسکور بڑا تھا اور اسے پار کرنا آسان کام نہیں تھا، لیکن ہندوستان کے پاس دنیا کے بہترین بلے باز ہیں، اس لئے یہ ہدف مشکل تو لگتا تھا، مگر ناممکن نہیں۔ ہمیں بہت بھروسہ تھا اپنی سلامی جوڑی پر۔ ویریندر سہواگ ایک مضبوط اور تیز شروعات دیں گی، اس کی امید کی جارہی تھی۔ سچن تندولکر اس پورے ٹورنامنٹ میں لگاتار اچھی بلے بازی کررہے تھی۔ آخری مقابلہ شروع ہونے سے قبل دو سنچری سمیت 464رن بنا چکے تھی۔ بلے بازی کے اس مقابلہ میں ان سے آگے صرف ایک سری لنکائی بلے باز تلک رتنے دلشان تھے اور ان کے بھی محض 3رن زیادہ تھی، یعنی قوی امکان تھا کہ سچن تندولکر نہ صرف ان سے آگے نکل جائیں گی، بلکہ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رن بنانے والے بلے باز قرار دئے جائیں گی، ساتھ ہی جس شدت کے ساتھ ان کی 100ویں سنچری کا انتظار تھا، اس کے لئے بھی امید کی جارہی تھی کہ ان کے گھریلو میدان پر اس عظیم بلے باز سے ہمیں یہ کارنامہ بھی دیکھنے کو ملے گا، مگر افسوس یہ امیدیں پوری نہ ہوسکیں۔ ویریندر سہواگ صرف دو گیندیں کھیل کر ملنگا کی بال پر ایل بی ڈبلیو قرار دئے گئی۔ اس طرح ہندوستان کا جب پہلا وکٹ گرا،اسکور صفر تھا۔ آؤٹ دئے جانے کا فیصلہ بہت صاف شفاف نہیں تھا۔ پوری طرح شک و شبہات سے بھرا تھا۔ آخری فیصلہ کے لئے تھرڈ امپائر کی مدد لی گئی۔ بار بار ایکشن ری پلے میں دکھایا گیا، گیند نے بلے کو چھوا تھا یا نہیں، یہ اتنا واضح نہیں ہورہا تھا کہ پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکے اور شک کا فائدہ بلے باز کو ملنا چاہئے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا ویریندر سہواگ آؤٹ ہوکر پویلین لوٹ آئی۔ ہندوستانی ٹیم اور شائقین کے لئے پہلا مگر بہت بڑا جھٹکا تھا۔ تیزی سے رن بنائے جانے کی امیدیں دم توڑنے لگی تھیں، تاہم سچن تندولکر کی موجودگی قابل اطمینان تھی، لیکن یہ کیا محض 14 گیند پر صرف 18 رن بناکر آؤٹ، کرکٹ کی دنیا کا بے تاج بادشاہ واپس لوٹ رہا تھا۔ 100ویں سنچری کی بات تو دور، آج ان کے نام کے ساتھ اتنے رن بھی نہیں تھے کہ ہندوستان جیت کے لئے ایک امید بھری شروعات کرپاتا۔ اب میدان پر گوتم گمبھیر اور وراٹ کوہلی کی جوڑی تھی۔ دونوں ہی اچھے بلے باز تھی، ان کے بعد آنے والے بلے بازوں سے بھی امیدیں کی جاسکتی تھیں، مگر جس طرح ویریندرسہواگ اور سچن تندولکر آؤٹ ہوئی، ایسا لگا کہ ہندوستان اس میچ سے باہر ہوچکا ہی، اب وہ جیت کی لڑائی نہیں لڑپائے گا، بس میدان پر خانہ پری ہوگی اور سری لنکا فائنل جیت جائے گا۔ جلد ہی وراٹ کوہلی بھی آؤٹ ہوکر پویلین لوٹ گئی، اب میدان پر یووراج سنگھ کو آنا تھا اور ان کے بعد سریش رینا کو، تب جاکر بیٹنگ آرڈر کے حساب سے کپتان مہندرسنگھ دھونی آتی، لیکن یہ کیا جب اسکور صرف 3 وکٹ پر14رن بنا تھا اور جیت کے لئے 161رن درکار تھی، بہت مشکل نظر آرہا تھا، کپتان مہندرسنگھ دھونی خود میدان پر آکر کھڑے ہوگئی۔ اس پورے ٹورنامنٹ میں یعنی ورلڈ کپ کے تمام میچوں کے دوران ایک بلے باز کی حیثیت سے دھونی کی کارکردگی بہت اچھی نہیں رہی تھی اور اس موقع پر شائقین کا ان سے امیدیں وابستہ کرلینابہت مشکل نظر آرہا تھا، لیکن کمال کی خوداعتمادی کا مظاہرہ کیا ہندوستانی کپتان مہندرسنگھ دھونی نی۔ وہ جیسے یہ فیصلہ کرکے آئے تھے کہ اب میں میدان پر جارہا ہوں تو ٹیم کو فتح سے ہمکنار کرکے ہی واپس لوٹوں گا اور ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے گوتم گمبھیر کے ساتھ مل کر ہار کے خطرے سے گزررہی ٹیم کو فتح کی طرف گامزن کیا اور جب یہ لگنے لگا تھا کہ ہندوستان کی یہی جوڑی جیت کے لئے ضروری رن بنانے میں کامیاب ہوجائے گی، تب ہی ایک زوردار شاٹ لگانے کی کوشش میں گوتم گمبھیر آؤٹ ہوگئی۔ اس وقت تک گوتم گمبھیر 97رن بناچکے تھے اور اگر آؤٹ نہ ہوتے تو یہ شاٹ ان کی سنچری کو مکمل کرسکتا تھا۔ اب میدان پر یووراج سنگھ اپنے کپتان کا ساتھ دینے کے لئے آئی۔ یووراج سنگھ نے اس پورے ٹورنامنٹ میں گیند اور بلے سے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا تھا، لیکن کرکٹ کے کھیل میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ ہم نے اسی ٹورنامنٹ کے دوران اپنی ٹیم کو ایک وکٹ پر66 رن بناتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور پھر محض 29رن کے دوران 9وکٹوں کو بھی گرتے دیکھا ہی۔ گیند جب ملنگا جیسے خطرناک بالر کے ہاتھ میں ہواور سہواگ اور تندولکر جیسے بلے بازوں کے وکٹ گرچکے ہوں تو بہت اعتماد کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ گمبھیر کے آؤٹ ہونے کے بعد باقی بچے 51 رن بھی بہت آسانی سے بن جائیں گی، لیکن یووراج سنگھ بھی جیسے فیصلہ کرکے آئے تھے کہ بس اب اور نہیں، جتنے وکٹ گرنے تھے گرچکی۔ جیت کی منزل تک ہمیں ہی پہنچنا ہی۔ شاید یہ بھی ان کے ذہن میں تھا کہ ’مین آف دی ٹورنامنٹ‘ کا خطاب ان سے بہت دور نہیں ہی۔ چار بار ’مین آف دی میچ‘ کا خطاب اسی ٹورنامنٹ میں وہ پہلے ہی جیت چکے تھی، لہٰذا بہت اعتماد اور سنجیدگی کے ساتھ انہوں نے اپنے کپتان کا ساتھ نبھایا۔ اب ہمارے پاس وکٹ بھی تھی، گیندیں بھی تھیں اور رن بھی بہت زیادہ نہیں تھی۔ آہستہ آہستہ چل کر بھی منزل تک پہنچ سکتے تھی، لیکن خوداعتمادی سے بھرے کپتان مہندرسنگھ دھونی کو جیسے ثابت کرنا تھا کہ آج کے ہندوستانی کرکٹ ٹیم ایک ایسی مضبوط اور مکمل ٹیم ہی، جس کا ہرہر کھلاڑی ٹیم کو فتح دلانے کی حیثیت رکھتا ہی۔ ایک دو تین مایہ ناز بلے بازوں کا جلد آؤٹ ہوجانا مخالف ٹیم کے لئے فتح کی امیدیں نہیں جگاسکتا اور ان کے بعد بھی یہ ٹیم شاہانہ انداز میں فتح حاصل کرسکتی ہی، لہٰذا آخری مرحلہ میں انہوں نے جس طرح جارحانہ بلے بازی کی، اسے کرکٹ شائقین ایک لمبے عرصہ تک یاد رکھیں گی۔ اس مکمل مضمون میں اگر دھونی کے وننگ شاٹ کا ذکر نہ کیا جائے تو بات ادھوری رہے گی، جس طرح نوان کلشیکھرا کی بال پر مہندرسنگھ دھونی کے ایک زوردار شاٹ نے گیند کو میدان کے باہر بھیجا، سارا ہندوستان تالیوں سے گونج اٹھا۔ اب یہ میچ صرف ممبئی کے وانکھیڑے اسٹیڈیم تک محدود نہیں تھا، مہندرسنگھ دھونی کے اس وننگ شاٹ کی دھوم ہر گھر میں سنائی دے رہی تھی۔ یہاں تک کہ یوپی اے کی چیئرپرسن سونیاگاندھی بھی فتح کے اس جشن میں شامل ہونے کے لئے اپنے گھر سے باہر نکل آئی تھیں۔ ہم کیسے کم کرکے آنک سکتے ہیں اس شاندار جیت کو۔ دنیا کے عظیم بلے باز سچن تندولکر کے لئے ورلڈ کپ جیتنے کا یہ تحفہ، ایک ایسا یادگار تحفہ ہے جس کے وہ واقعی مستحق تھے اور ہمیں یہ دیکھ کر اس وقت اور بھی زیادہ خوشی ہوئی کہ کپتان مہندرسنگھ دھونی ظہیرخان کی بانہوں میں بانہیں ڈالے نظر آئے اور کرکٹ کا شہنشاہ سچن تندولکر یوسف پٹھان کے کاندھوں پر تھا۔ سلام اس بھارتیہ کرکٹ ٹیم کو، جس نے ہندوستان کو عظمتوں سے ہمکنار کیا۔
امید ہے میرے قارئین کو یہ گراں نہیں گزرا ہوگا کہ میں نے آج کے مضمون میں اسیمانندکے ادھورے بیان کو مکمل نہیں کیا۔ دراصل میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی فتح پر اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے انتظار نہیں کرنا چاہتا تھا۔ رہا سوال اسیمانند کے بیان کو مکمل کرنے اور اس پر تبصرہ کا تو یہ انشاء اللہ جاری رہے گا۔ بیان کے بقیہ اہم اقتباسات بھی اور میرا تبصرہ بھی۔ ویسے بھی یہ بیان چونکہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور تقریباً تمام ہندوستان اس سے واقف ہی، یہاں ہم اس بیان کے اس پہلو کو واضح کرنے کے لئے ہی ایک بار پھر دے رہے ہیں کہ اگر تمام ملزمین کے اقبالیہ بیانات اسی طرح ان کے بدلے ہوئے بیانات کی وجہ سے مشکوک قرار دئے جاتے رہی، یعنی پہلا بیان صحیح تھا یا بعد کا، یہ ایک پیچیدہ سوال بن گیا ہی، تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم کسی بھی دہشت گردانہ حملہ کے اصل مجرموں تک کیسے پہنچیں گی، سچائی کاپتہ کیسے لگائیں گے اور کوئی بھی سزا کا مستحق کس طرح ثابت ہوپائے گا۔
اس وقت جب میں آج کے مضمون کو آخری شکل دے رہا ہوں، اترولا(گونڈا، یوپی) سے منتظمین کے ذریعہ فون پر رابطہ قائم کرنے کی برابر کوشش کی جارہی ہی۔ اس وقت بات کرنا بھی مشکل ہے اور کل یعنی 4اپریل011کو منعقد ہونے والے اس پروگرام میں شرکت بھی نہیں کرپاؤں گا، دراصل اس وقت صحت اور مصروفیت کا تقاضا سفر کی اجازت نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے 27مارچ011کو حکومت ہند کی جانب سے بیرون ممالک دوحہ، دارالسلام، عدیس ابابا اور خرطوم کے دورہ پر جانے والے میڈیا ڈیلی گیشن میں جانا تھا۔ تمام تیاریاں مکمل ہونی، ٹکٹ تک آجانے کے باوجود یہ ممکن نہ ہوسکا، اس لئے کہ ڈاکٹر کی اجازت نہیں تھی۔ یہی صورتحال آج بھی ہی، اس لئے میں تمام منتظمین اور سامعین سے معذرت خواہ ہوں کہ چاہ کر بھی ان کے درمیان حاضر نہیں ہوپارہا ہوں۔انشاء اللہ پھر کبھی……
…………

इस टीम के फ़ातहाना जज़्बे को सलाम!
अज़ीज़ बर्नी

एक दिन के लिए उस सिलसिले को रोकना होगा जो जारी था। मेरा आशय असीमानंद के इक़बालिया बयान से है और इसका कारण कोई मामूली नहीं जिसके लिए मैं आजके लेख की शुरूआत असीमानंद के बयान से नहीं करना चाहता। वास्तव में भारतीय क्रिकेट टीम का विश्व कप जीतना अपने आप में बहुत बड़ी बात है। यह बहुत बड़ी बात कई अर्थों में है और मैं नहीं चाहता कि मेरे वो पाठक जो मेरे लेखों का रिकाॅर्ड रखते हैं उन्हंे इस विश्व कप की सफलता पर मेरे विचार पढ़ने और जमा करने का अवसर न मिले।
मैंने पहली बार यह देखा कि एक ही मैच के लिए एक ही समय में टाॅस दोबारा किया गया। क्रिकेट वल्र्ड कप के इतिहास में शायद यह पहला अवसर है कि मैच शुरू होने से पूर्व दोनों कप्तानों के द्वारा किए गए टाॅस का कोई परिणाम नहीं निकला। मौसम और माहौल का असर अक्सर मैच पर तो होता रहा है लेकिन टाॅस पर यह पहली बार देखने को मिला कि शोर के कारण रेफ़री यह सुन नहीं पाए कि श्रीलंका के कप्तान ने क्या कहा है, मगर हैरानी की बात यह है कि क्या स्वयं श्रीलंकाई कप्तान कुमार संगाकारा और भारतीय क्रिकेट टीम के कप्तान महेंद्र सिंह धोनी ने भी नहीं सुना कि धोनी के सिक्के की उछाल पर कुमार संगाकारा की ‘काल’ क्या थी। स्टेडियम में मौजूद दर्शकों का शोर इतना था कि कुछ भी सुनाई नहीं देता था। दोनों कप्तान, मैच रेफ्ऱी और सिक्के की उछाल के समय वहां मौजूद रवि शास्त्री यह सभी इतने एक्साइटिड थे कि वल्र्ड कप फ़ाइनल की शुरूआत के सबसे महत्वपूर्ण चरण में ही चूक हो गई। बहरहाल टाॅस दोबारा किया गया। टाॅस का जीतना महत्वपूर्ण बात थी, दोनों कप्तानों में से कोई भी इस बात पर अडिग क्यों नहीं हुआ कि एक बार टाॅस हो चुका है और वह जीत चुका है तो दूसरी बार क्यों। महेंद्र सिंह धोनी की बाॅडी लैंग्वेज बता रही थी कि पहली बार सिक्के की उछाल में वह जीत चुके थे, मैं उस समय लाइव टेलीकास्ट के साथ-साथ स्टार न्यूज़ भी देख रहा था। जहां बार-बार इस दृश्य को दिखाया गया और देर तक इस विषय पर बहस जारी रही। महेंद्र सिंह धोनी का रवैया बहुत सकारात्मक था और दूसरी बार में टाॅस हार जाने के बाद भी उनके चेहरे पर कोई मलाल नज़र नहीं आया। टाॅस जीत कर पहले बेटिंग करने वाली टीम लाभ में नज़र आ रही थी, इसके बावजूद ‘मिस्टर कूल’ कूल ही रहे और अपनी टीम के साथ मैदान की तरफ़ कूच कर गए। ज़हीर ख़ान ने अपने पहले तीनों ओवर लगातार मेडन रख कर इस बात का संकेत दिया कि वल्र्ड कप जीतने के लिए यह टीम जान लड़ा देने का इरादा रखती है। हालिया क्रिकेट वल्र्ड कप में श्रीलंका के सलामी बल्ले बाज़ इस पूरे टूर्नामेंट के दौरान सबसे बेहतर जोड़ी साबित हुए और उन्हें पहले दस ओवर तक बहुत ख़ामोश रहने और सावधानी से रन बनाने के लिए मजबूर कर देना एक बहुत बड़ी बात थी। इस बीच ज़हीर ख़ान ने श्रलंकाई सलामी बल्ले बाज़ उपुल थरंगा को विकिट के पीछे अपने कप्तान धोनी के हाथों कैच कराकर श्रीलंका के बल्ले बाजा़ें को यह एहसास दिलया कि भारत के विरुद्ध सफलता के ख़्वाब को सच साबित करना कोई आसान काम नहीं है, फिर भी आहिस्ता-आहिस्ता श्रीलंका मज़बूती की तरफ़ बढ़ता गया। माहिला जय वर्धने ने अपनी बेहतरीन बल्ले बाज़ी के द्वारा जीतने योग्य स्कोर खड़ा कर लिया। अंतिम पांच ओवरों में श्रीलंका के बल्ले बाज़ों ने कमाल कर दिया। सिर्फ़ तीस गेंदों में 67 रन बहुत बड़ी बात है। जब श्रीलंका की पारी समाप्त हुई तो उनका स्कोर पांच विकिट पर 274 रन था, यानी भारत को जीत के लिए 275 रन दरकार थे। स्कोर बड़ा था और इसे पार करना आसान काम नहीं था लेकिन भारत के पास दुनिया के बेहतरीन बल्लेबाज़ हैं इसलिए यह निशाना मुश्किल तो लगता था लेकिन असंभव नहीं। हमें बहुत भरोसा था अपनी सलामी जोड़ी पर। वीरेंद्र सहवाग एक मज़बूत और तेज़ शुरूआत कर देंगे इसकी उम्मीद की जा रही थी। सचिन तेंदुलकर इस पूरे टूर्नामेंट में अच्छी बल्ले बाज़ी कर रहे थे। अंतिम मुक़ाबला शुरू होने से पूर्व दो शतकों समैत 464 रन बना चुके थे। बल्ले बाज़ी के इस मुक़ाबले में उनसे आगे सिर्फ़ एक श्रीलंकाई बल्ले बाज़ तिलक रतने दिलशान थे और उनके भी केवल 3 रन अधिक थे, अर्थात इस बात की अच्छी संभावना थी कि सचिन तेंदुलकर न केवल उनसे आगे निकल जाएंगे, बल्कि टूर्नामेंट में सबसे अधिक रन बनाने वाले बल्ले बाज़ ठहराए जाएंगे, साथ ही जिस शिद्दत के साथ उनके 100वें शतक का इंतिज़ार था उसके लिए भी उम्मीद की जा रही थी कि उनके घरेलू मैदान पर इस महान बल्लेबाज़ से हमें यह कारनामा भी देखने को मिलेगा। मगर अफ़सोस यह उम्मीदें पूरी न हो सकीं। वीरेंद्र सहवाग केवल दो गेंदें खेल कर मलिंगा की बाल पर एल.बी.डब्लयू आउट क़रार दे दिए गए। इस तरह भारत का यह पहला विकिट गिरा। आउट दिए जाने का फ़ैसला बहुत साफ़-सुथरा नहीं था। पूरी तरह शक व संशय से भरा था। अंतिम निर्णय लेने के लिए थर्ड अम्पायर की मदद ली गई। बार-बार एक्शन रिप्ले में दिखाया गया कि, गेंद ने बल्ले को छुआ था या नहीं यह इतना स्पष्ट नहीं हो पा रहा था कि पूरे विश्वास के साथ कहा जा सके और संदेह का लाभ बल्लेबाज़ को मिलना चाहिए था, लेकिन ऐसा नहीं हुआ और वीरेंद्र सहवाग आउट होकर पवैलियन वापस लौट गए। भारतीय टीम और दर्शकों के लिए पहला लेकिन बहुत बड़ा झटका था। तेज़ी से रन बनाए जाने की उम्मीदें दम तोड़ चुकी थीं, फिर भी सचिन तेंदुलकर की उपस्थिति काबिले इत्मीनान थी, लेकिन यह क्या केवल 14 गेंदों पर सिर्फ 18 रन बना कर आउट होकर क्रिकेट की दुनिया का बेताज बादशाह वापस लौट रहा था। 100वें शतक की बात तो दूर आज उनके नाम के साथ इतने रन भी नहीं थे कि भारत जीत के लिए एक उम्मीद भरी शुरूआत कर पाता। अब मैदान पर गौतम गंभीर और विराट कोहली की जोडी़ थी। उनके बाद आने वाले बल्ले बाज़ों से भी उम्मीदें की जा सकती थीं मगर जिस तरह वीरेंद्र सहवाग और सचिन तेंदुलकर आउट हुए ऐसा लगा कि भारत इस मैच से बाहर हो चुका है, अब वह जीत की लड़ाई नहीं लड़ पाएगा, बस मैदान पर ख़ानापुरी होगी और श्रीलंका फ़ाइनल जीत जाएगा। जल्दी ही विराट कोहली भी आउट होकर पवैलियन लौट गए। अब मैदान पर युवराज सिंह को आना था और उनके बाद सुरेश रेना को तब जाकर बेटिंग आर्डर के हिसाब से कप्तान महेंद्र सिंह धोनी आते, लेकिन यह क्या जब स्कोर केवल तीन विकिट पर 114 था और जीत के लिए 161 रन चाहिए थे, जो बहुत मुश्किल नज़र आरहा था, कप्तान महेंद्र सिंह स्वयं मैदान पर आ कर खड़े हो गए। इस पूरे टूर्नामेंट में अर्थात विश्व कप के तमाम मैचों के दौरान बल्ले से धोनी का प्रदर्शन बहुत अच्छा नहीं रहा था और इस अवसर पर खेल प्रमियों का उनसे आशाएं कर लेना बहुत मुश्किल नज़र आ रहा था लेकिन कमाल के आत्मविश्वास का प्रदर्शन किया भारतीय कप्तान महेंद्र सिंह धोनी ने। वह जैसे कि यह फ़ैसला करके आए थो कि मैं अब मैदान में जा रहा हूं तो टीम को जीत दिलाकर ही वापस लौटूंगा और ऐसा ही हुआ। उन्होंने गौतम गंभीर के साथ मिलकर हार के ख़तरे से गुज़र रही टीम को जीत की तरफ़ बढ़ाया और जब यह लगने लगा था कि भारत की यही जोड़ी जीत के लिए आवश्यक रन बनाने में सफल हो जाएगी तभी एक ज़ोरदार शाॅट लगाने के प्रयास में गौतम गंभीर आउट हो गए। उस समय तक गौतम गंभीर 97 रन बना चुके थे और अगर आउट न होते तो यह शाॅट उनके शतक को पूरा कर सकता था। अब मैदान पर युवराज सिंह अपने कप्तान का साथ देने के लिए आए। युवराज सिंह ने इस पूरे टूर्नामेंट में गेंद और बल्ले से बेहतरीन खेल का प्रदर्शन किया था, लेकिन क्रिकेट के खेल में कुछ भी नहीं कहा जा सकता। हमने इसी टूर्नामेंट के दौरान अपनी टीम को एक विकिट पर 266 रन बनाते हुए भी देखा है और फिर केवल 29 रन के बीच 9 विकटों को भी गिरते देखा है। गेंद जब मलिंगा जैसे ख़तरनाक बाॅलर के हाथ में हो और सहवाग और सचिन जैसे बल्ले बाज़ों के विकिट गिर चुके हों तो बहुत विश्वास के साथ नहीं कहा जा सकता कि गंभीर के आऊट होने के बाद बाक़ी बचे 51 रन भी बहुत आसानी से बन जाएंगे लेकिन युवराज भी जैसे फ़ैसला करके आए थे कि बस अब और नहीं, जितने विकिट गिरने थे गिर चुके, जीत की मंज़िल तक हमें ही पहुंचना है, शायद यह भी उनके मन में था कि ‘मैन आॅफ़ दि टूर्नामेंट’ का एवार्ड उनसे बहुत दूर नहीं है। चार बार मैन आॅफ़ दि मैच का एवार्ड वह इसी टूर्नामेंट में पहले ही जीत चुके थे, अतः बहुत विश्वास और गंभीरता के साथ उन्होंने अपने कप्तान का साथ निभाया। अब हमारे पास विकिट भी थे, गेंदें भी थीं और रन भी बहुत अधिक नहीं थे। आहिस्ता-आहिस्ता चल कर भी मंज़िल की ओर पहुंच सकते थे, लेकिन आत्मविश्वास से भरे कप्तान महेंद्र सिंह धोनी को जैसे साबित करना था कि आज की भारतीय क्रिकेट टीम एक ऐसी मज़बूत और मुकम्मल टीम है जिसका हर-हर खिलाड़ी टीम को जीत दिलाने की हैसियत रखता है। एक, दो या तीन बड़े बल्ले बाज़ो का जल्दी आउट हो जाना विरोधी टीम के लिए जीत की उम्मीदें नहीं जगा सकता और उनके बाद भी यह टीम शाही अंदाज़ में जीत प्राप्त कर सकती है, अतः अंतिम चरण में उन्होंने जिस तरह आक्रामक बल्ले बाज़ी की उसे क्रिकेट प्रेमी एक लम्बे समय तक याद रखेंगे। इस पूरे लेख में अगर धोनी के विनिंग शाॅट का उल्लेख न किया जाए तो बात अधूरी रहेगी, जिस तरह नोवान कुलशेखरा की गेंद पर महेंद्र सिंह धोनी के एक ज़ोरदार शाॅट ने गेंद को मैदान के बाहर भेजा सारा भारत तालियों से गूंज उठा। अब यह मैच केवल मुंबई के वानखेड़े स्टेडियम तक सीमित नहीं था। महेंद्र सिंह धोनी के इस विनिंग शाॅट की धूम हर घर में सुनाई दे रही थी। यहां तक कि यूपीए की चेयरपर्सन सोनिया गांधी भी जीत के इस जश्न में शामिल होने के लिए अपने घर से बाहर निकल आई थीं। हम कैसे कम करके आंक सकते हैं इस शांदार जीत को। दुनिया के महान बल्ले बाज़ सचिन तेंदुलकर के लिए विश्व कप जीतने का यह तोहफ़ा एक ऐसा यादगार तोहफ़ा है जिसके वह वास्तव में अधिकारी थे और हमें यह देख कर उस समय और भी ज़्यादा ख़ुशी हुई कि कपतान महेंद्र सिंह धोनी ज़हीर ख़ान की बाहों में बाहें डाले नज़र आए और क्रिकेट का शहनशाह सचिन तेंदुलकर यूसुफ़ पठान के कंधों पर था। सलाम उस भारतीय क्रिकेट टीम को जिसने भारत को यह महानताएं दीं।
उम्मीद है मेरे पाठकों को यह बुरा नहीं लगेगा कि मैंने आजके लेख में असीमानंद के अधूरे बयान को पूरा नहीं किया। वास्तव में मैं भारतीय क्रिकेट टीम की जीत पर अपनी भावनाओं का प्रदर्शन करने के लिए प्रतीक्षा नहीं करना चाहता था। रहा प्रश्न असीमानंद के बयान को पूरा करने और टिप्पणी करने का तो यह इनशाअल्लाह जारी रहेगा। बयान के शेष महत्वपूर्ण अंश भी और मेरी टिप्पणी भी। वैसे भी यह बयान क्योंकि ऐतिहासिक अहमियत है और लगभग पूरा भारत इससे वाक़िफ़ है, यहां हम इस बयान के इस पहलू को स्पष्ट करने के लिए ही एक बार फिर दे रहे हैं कि अगर तमाम आरोपियों के इक़बालिया बयान इसी तरह उनके बदले हुए बयानों के कारण संदिग्ध क़रार दिए जाते रहे, यानी पहला बयान सही था या बाद का, यह एक पैचीदा सवाल बन गया। तो अनुमान लगाया जा सकता है कि हम किसी भी आतंकवादी हमले के असल अपराधियों तक कैसे पहुंचेंगे, सच्चाई का पता कैसे लगाएंगे और कोई भी सज़ा का पात्र किस तरह साबित हो पाएगा।
इस समय जब मैं आज के लेख को अंतिम रूप देरहा हूं उतरौला (गोण्डा, यू.पी) से प्रबंध्कों के द्वारा फोन पर सम्पर्क करने का निरंतर प्रयत्न किया जारहा है। इस समय बात करना भी कठिन है और कल यानी 4 अप्रैल को आयोजित होने वाले इस प्रोग्राम में सम्मिलित भी नहीं हो पाऊंगा। वास्तव में इस वक्त स्वास्थ और व्यस्तता सफ़र की इजाज़त नहीं देते। यही कारण है कि मुझे 27 मार्च को भारत सरकार की ओर से देश से बाहर दोहा, दारेस्सलाम, अदीस अबाबा और खुरतूम के दौरे पर जाने वाले मीडिया डेलिगेशन में जाना था। तमाम तैयारियाँ सम्पन्न होने, टिकिट तक आजाने के बावजूद यह संभव न होसका इसलिए कि डाॅक्टर की अनुमति नहीं थी। यही स्थिती आज भी है। इसलिए मैं तमाम प्रबंध्कों और समारोह में हिस्सा लेने वालों से क्षमा का प्रार्थी हूॅं कि चाहते हुए भी उनके बीच उपस्थित नहीं हो पारहा हूॅं। इन्शाअल्लाह फिर कभी....
...................................

Friday, April 1, 2011

‘‘खेल को खेल ही रहने दो कोई और नाम न दो’’
अज़ीज़ बर्नी

‘‘खेल को खेल ही रहने दो कोई और नाम न दो’’
अज़ीज़ बर्नी

30 मार्च 2011 को जिस समय मैं अपने मुसलसल लेख की 224वीं कि़स्त ‘मेरी आंखों में तुम्हारे ख़्वाब हैं’ लिख रहा था, उस समय मोहाली में भारत और पाक के बीच क्रिकेट मैच चल रहा था। एक ऐसा क्रिकेट मैच जिसकी कल्पना इससे पहले कभी भी नहीं थी। मुझे विद्यार्थी जीवन से ही क्रिकेट में रुचि रही है। यूनिवर्सिटी स्तर तक क्रिकेट खेलता भी रहा हूं और आज भी भारत की क्रिकेट टीम का मुक़ाबला चाहे किसी भी देश की क्रिकेट टीम से हो मैं वह मैच अवश्य देखना चाहता हूं और उस मैच में भारत की जीत भी अवश्य चाहता हूं, लेकिन 30 मार्च 2011 को विश्व कप सेमीफ़ाइनल में भारत और पाकिस्तान के बीच होने वाला क्रिकेट मैच केवल एक क्रिकेट मैच नहीं लग रहा था। जिस तरह की पब्लिसिटी और प्रबंध इस क्रिकेट मैच के लिए किए जा रहे थे उन्हें देख कर यह बिल्कुल अंदाज़ा नहीं हो रहा था कि यह कोई खेल का मुक़ाबला है। हमारे देश के नेताओं प्रधानमंत्री डा॰ मनमोहन सिंह, यूपीए की चेयरपर्सन श्रीमति सोनिया गांधी, सत्ताधारी कांग्र्रेस के महासचिव और नौजवान लीडर राहुल गांधी, पाकिस्तान के प्रधानमंत्री यूसुफ़ रज़ा गीलानी सहित भारत की फि़ल्मी दुनिया और कार्पोरेट जगत के प्रमुख व्यक्ति इस मैच का आनंद ले रहे थे। क्रिकेट इन सबका पसंदीदा खेल है या यह अपनी-अपनी टीमों के उत्साहवर्धन के लिए तमाम व्यस्तताओं के बावजूद वहां मौजूद थे, यह तो वही जानें, हां, अगर दोनों देशों के बीच रिश्तों को बेहतर बनाने की नियत से और बातचीत के नए अध्याय की शुरूआत के लिए क्रिकेट मैदान का ख़ुश्गवार माहौल इनके द्वारा चुना गया तो इसे भविष्य के लिए अच्छा संदेश समझा जा सकता है। हमें ख़ुशी है कि भारत ने इस मैच में जीत हासिल की, लेकिन हमें अफ़सोस है कि पाकिस्तान की हार के बाद बहुत से पाकिस्तानी नागरिकों को यह सदमा सहन नहीं हुआ, आत्महत्या से लेकर दिल की धड़कन बंद हो जाने अर्थात हार्ट अटैक की घटनाएं सामने आईं। क्या हमें खेल को इस हद तक भावनात्मक अंदाज़ में लेना चाहिए। क्या भारत और पाकिस्तान के बीच खेल खेल न रह कर आबरू का सवाल बन गया है। आत्मसम्मान की लड़ाई बन गया है। खेल की इस हार-जीत को क्या हमने दो देशों की हार-जीत मान लिया है, अगर ऐसा है तो यह उचित नहीं है। पाकिस्तान की क्रिकेट टीम ने इस विश्व कप में जितने अच्छे खेल का प्रदर्शन किया उसके लिए तमाम पाकिस्तानी क्रिकेट खिलाड़ी और कप्तान शाहिद आफ़रीदी मुबारकबाद के अधिकारी हैं। पाकिस्तानी टीम ने जिस तरह वैस्ट इंडीज़ को 10 विकेट से हराया, आॅस्ट्रेलिया जैसी मज़बूत टीम को शिकस्त दी और फ़ाइनल तक पहुंचने वाली श्रीलंगा की टीम को भी हराने में सफलता प्राप्त की, क्या यह कोई मामूली बात थी, रहा सवाल भारत से हार जाने का तो दो अच्छी टीमों के बीच जब मुक़ाबला होता है तो उनमें से कोई एक तो जीतती ही है और दूसरी हारती है। इसे हमें एक खेल की तरह लेना और समझना चाहिए, अगर पाकिस्तान के कप्तान को भारत से हार के बाद अपराध बोध हो और अपने देश की जनता से माफ़ी मांगनी पड़े तो क्या इसे खेल के स्वास्थ्य के लिए एक सार्थक क़दम क़रार दिया जा सकता है। इंग्लैण्ड जिसने क्रिकेट के खेल को जन्म दिया वह टीम सेमी फ़ाइनल तक भी नहीं पहुंच पाई। इस विश्व कप में उसे बंग्लादेश, आयरलैंड जैसी टीमों से हार का सामना करना पड़ा। क्या इस टीम के कप्तान ने विश्वकप में इस हार के लिए अपने देश के नागरिकों से माफ़ी मांगी। दक्षिणी अफ्ऱीक़ा और आस्ट्रेलिया क्रिकेट की दुनिया की सबसे मज़बूत टीमें मानी जाती रही हैं। दोनों ही सेमी फ़ाइनल तक नहीं पहुंच सकीं। क्या उन्होंने अपने-अपने देश के नागरिकों से माफ़ी मांगने की आवश्यकता महसूस की। क्रिकेट एक खेल है, खेल में कोई भी टीम हार सकती है और उस दिन खेल के हर क्षेत्र में अच्छा प्रदर्शन करने वाली टीम जीत सकती है। इस खेल को विशेषतः जब यह भारत और पाकिस्तान के बीच हो तब भी हार-जीत को इस तरह भावनाओं के साथ नहीं जोड़ लेना चाहिए कि इसके नकारात्मक प्रभाव देखने को मिलें।
ऐसे समय में जब भारत की तमाम सड़कों का रुख़ चण्डीगढ़ की ओर मुड़ गया था लगभग हर भारतीय यह मैच देखने के लिए मोहाली पहुंचना चाहता था। पाकिस्तान से वाघा सीमा के रास्ते बड़ी संख्या में खेल प्रेमी मोहाली पहुंच रहे थे और जो नहीं पहुंच सके वह टीवी स्क्रीन के सामने बैठ कर इस खेल का आनंद ले रहे थे। उस समय मैं अपना लेख ‘‘मेरी आंखों में तुम्हारे ख़्वाब हैं’’ लिख रहा था। जैसा कि मैंने अजऱ् किया कि क्रिकेट एक ज़माने से मेरा पसंदीदा खेल रहा है और आज भी है। अतः यह बड़ा मुश्किल था कि मैं ख़ुद को उस दिन खेल से दूर रख पाता। पूरी तरह रख भी नहीं पाया, लेकिन मुझे इस बात का भी एहसास था कि मैं अपने लेख के सिलसिले को टूटने भी नहीं देना चाहता था, इसलिए कि खेल बहरहाल खेल है। कर्तव्य और जि़म्मेदारी का एहसास इससे अलग है। अगर दोनों चीज़ें साथ साथ चल सकती हैं तो बहुत बेहतर हैं और अगर ऐसा न हो सकता हो तो हम अपनी जि़म्मेदारियों से मुंह नहीं मोड़ सकते। आज यह सब लिखने की आवश्यकता इसलिए महसूस हुई कि शायद आने वाले समय में हम क्रिकेट को एक खेल तक सीमित नहीं रहने देना चाहते, विशेषरूप से भारत और पाकिस्तान के बीच अगर यह क्रिकेट का खेल हो रहा हो तो यह आमिर ख़ान की फि़ल्म ‘‘लगान’’ की कहानी बन जाता है। इस फि़ल्म का विषय यही था, मगर उस समय खेल में जीत का उद्देश्य कुछ और था। आज भारत और पाकिस्तान के बीच होने वाला क्रिकेट मैच इंगलैंड और आॅस्ट्रेलिया के बीच होने वाले क्रिकेट मैचों की तरह तो देखा जा सकता है लेकिन किसी जंग की तरह नहीं। इन दोनों में से किसी भी देश के नागरिक हार और जीत से इस हद तक प्रभावित होने लगें कि उनकी जान पर बन आए तो फिर हमें सोचना होगा कि आखि़र हमने अब खेल को क्या बना दिया है। यह नवाबों का दौर नहीं है कि दो बटेरों की लड़ाई आत्मसम्मान की लड़ाई बन जाए। यह खेल है और हमें इसको खेल की भावना से लेना है, अगर किसी भी देश का खिलाड़ी अच्छे खेल का प्रदर्शन कर रहा है, मगर उसकी टीम जीत प्राप्त नहीं कर सकी है तब भी वह खिलाड़ी क़ाबिले तारीफ़ समझा जाना चाहिए। हो सकता है मेरी यह राय रद्द किए जाने योग्य हो, ऐतराज़ के क़ाबिल हो, मगर कोई भी खेल या किसी भी खेल का मुक़ाबला उस खेल के प्रेमियों की जान के लिए ख़तरा बन जाए तो मुझे लगता है कि उस पर गंभीरता से ग़्ाौर करने की आवश्यकता है। कल हमें वल्र्ड कप के मुक़ाबले में श्रीलंका के विरुद्ध मैदान में उतरना है। जिस समय आप मेरा यह लेख पढ़ रहे होंगे लगभग तमाम टीवी चैनल मुंबई के वानखेड़े स्टेडियम में चलने वाली सरगर्मियों के समाचार दिखा रहे होंगे। मुंबई शहर के हर गली-कूचे में किस तरह इस खेल की चर्चा हो रही है यह आपके सामने पेश किया जा रहा होगा। महाराष्ट्र में पहले ही सरकारी छुट्टी की घोषणा कर दी गई है। मुझे यह आशा है कि हमारी टीम यह अंतिम मुक़ाबला भी अवश्य जीत लेगी और मेरी इच्छा भी यही है। लेकिन भगवान न करे अगर नतीजा हमारी आशाओं या इच्छाओं के उलट हो तो भी हम अपने देश के एक भी नागरिक को जान गंवाते हुए देखना पसंद नहीं करेंगे। आज हमने इस खेल में बरतरी को सारी दुनिया पर साबित कर दिया कि भारत की क्रिकेट टीम आज विश्व की बेहतरीन क्रिकेट टीम है। सचिन तेंदुलकर जैसा बल्लेबाज़ आज सारी दुनिया में नहीं है। बरसों बाद क्रिकेट के मैदान पर हमें यह देखने को मिल रहा है कि हमारी टीम एक टीम की तरह खेल रही है। टीम का हर खिलाड़ी किसी न किसी रूप में जीत का हिस्सा बनता दिखाई दे रहा है, जो खिलाड़ी मैदान के बाहर बैठे हैं वह भी इतने योग्य हैं कि उनमें से अगर किसी को भी अपने देश के लिए खेलने का अवसर मिलता है तो वह अपना महत्व साबित करने का भरपूर प्रयास करता नज़र आता है। हमारी क्रिकेट टीम के कप्तान महेंद्र सिंह धोनी केवल अपनी कप्तानी के लिए भी इस जि़म्मेदारी के लिए खेल प्रेमियों की पहली पसंद बन गये है। न टीम टुकड़ों में बटी है न खिलाडि़यों के चुनाव में किसी राजनीति का दख़ल नज़र आ रहा है और न ही यह कि कोच का फ़ैसला कप्तान को अपनी पसंद के खिलाड़ी चुनने की राह में रुकावट बन रहा है। इन तमाम ख़ूबियों के बावजूद अगर हम किसी एक मैच में उस दिन सफलता प्राप्त नहीं कर पाते तो उसको इस हद तक दिल पर बिल्कुल नहीं लिया जाना चाहिए कि हमारे खिलाडि़यों की भावनाओं को ठेस पहुंचे, वह स्वंय को शर्मिंदा महसूस करें या उन्हें अपराध बोध होने लगे। वह हमारे देश के लिए खेल रहे हैं, उन्हें हमारे प्यार और दुआओं की आवश्यकता है और हमारे नैतिक समर्थन की भी, लेकिन हमारी इच्छाओं और आकांक्षाओं का बोझ इस तरह उनके सिर पर न हो कि वह अपने खेल के साथ न्याय न कर पाएं। शायद यही खेल के हित में है।
एक और महत्वपूर्ण विषय जिस पर मैं कल भी लिखना चाहता हूं और आज भी उसे नज़रअंदाज़ नहीं किया जा सकता, हालांकि लिखने के लिए गुंजाइश बहुत कम रह गई है, अतः क्रिकेट की बात को यहीं समाप्त करते हुए मैं असीमानंद के ताज़ा रुख़ पर कुछ वाक्य अवश्य लिखना चाहता हूं। असीमानंद ने अपने ताज़ा बयान में कहा है कि यह इक़बालिया बयान उनकी इच्छा के अनुसार नहीं था और उन पर दबाव डाला गया था, इसलिए बेहद विवशता में उन्हें इस तरह का बयान देना पड़ा। हो सकता है सच वही हो, जो वह अब कह रहे हैं और हो सकता है कि सच वही हो कि उन्होंने उस समय जो बयान दिया वह बिना किसी दबाव के था और दबाव उन पर अब डाला गया है। आज वह जो कुछ कह रहे हैं, वह बेहद विवशता में और दबाव डाले जाने के कारण कह रहे हैं। दोनों बयानों के बीच के अन्तराल पर भी हमें निगाह डालनी होगी। असीमानंद ने जब यह बयान मजिस्ट्रेट दीपक दबास के सामने दर्ज कराया, वह तारीख़ 18 दिसम्बर 2010 थी। हम उस बयान के शुरूआती चरण अपने पाठकों के सामने अवश्य पेश कर देना चाहते हैं ताकि अंदाज़ा किया जा सके कि उस समय जब असीमानंद मजिस्ट्रेट के सामने यह बयान दर्ज करा रहे थे तो किस सीमा तक मानसिक दबाव में थे या सीबीआई का दबाव उन पर था। संभव है कि आजके बाद कल का लेख फिर इसी विषय पर हो लेकिन आज और कुछ भी लिखने से पूर्व हम चाहेंगे कि असीमानंद ने कब किन परिस्थितियों में अपना यह बयान स्वयं अपने क़लम से दर्ज किया, पहले एक नज़र इस पर डाल लें, फिर इस पहलू पर ग़्ाौर करें कि तब से अब तक यानी दूसरा बयान जारी होने तक क्या वास्तव में असीमानंद को इतना अवसर नहीं मिला कि जो बात वह आज कह रहे हैं उनके इस क़ुबूलनामे के बाद कुछ दिनों में नहीं कही जा सकती थी। बहरहाल इस विषय पर बातचीत का सिलसिला जारी रहेगा, लेकिन पहले असीमानंद का वह क़ुबूलनामा दर्ज कराए जाने के समय के हालात पाठकों के सामने रख देना आवश्यक है। मुलाहिज़ा फ़रमाएं:

"At this stage, I have told the accused that I am a Magistrate and he (accused) is no longer in CBI/police custody and CBI officers cannot enter the chamber without my permission and whatever is happening inside the chamber is not audible or visible to the people outside the chamber.

I have asked the accused whether he wants to make a confessional statement before me or not. To this, the accused has answered in the affirmative.

I have asked the accused whether he is making the confession voluntarily or under some fear, force, coercion or inducement. Accused has submitted that he is making confession voluntarily without any fear, force, coercion or inducement.

I have told the accused that he is not bound to make the confession or any statement at all and if he makes any such statement or confession then, It may be used against him in evidence during the trial of present case and he may be convicted on the basis of his confessional statement. To this, accused has submitted that he fully understands the consequences of making a confessional statement. Accused has further submitted that he is giving his confessional statement voluntarily."

इस अवसर मैंने अभियुक्त को बताया कि मैं एक मजिस्ट्रेट हूं और वह (अभियुक्त) अब सीबीआई/पुलिस हिरासत में नहीं है और मेरी इजाज़त के बिना चैम्बर में सीबीआई अधिकारी दाखि़ल नहीं हो सकते और जो कुछ भी इस चैम्बर में हो रहा है उसे इस चैम्बर के बाहर लोग न सुन सकते हैं ओर न देख सकते हैं।
फिर मैंने अभियुक्त से पूछा कि वह मेरे सामने इक़बालिया बयान देना चाहते हैं या नहीं, इस पर अभियुक्त ने हां में जवाब दिया।
मैंने अभियुक्त से पूछा कि क्या वह अपना इक़बालिया बयान अपनी इच्छा से दे रहे हैं या किसी ख़ौफ़, दबाव, मजबूरी या उकसाने पर दे रहे हैं। अभियुक्त ने दर्ज कराया कि वह इक़बालिया बयान बिना किसी डर, दबाव या मजबूरी के अपनी इच्छा से दे रहा है।
मैंने अभियुक्त को बता दिया है कि वह इक़बालिया या कोई और बयान देने का बिल्कुल भी पाबंद नहीं है और अगर वह कोई इक़बालिया बयान देता है तो वह बयान उसके विरुद्ध वह वर्तमान सुनवाई के बीच सुबूत के रूप में इस्तेमाल किया जा सकता है और उकसे इक़बालिया बयान के आधार पर मुजरिम ठहराया जा सकता है। इस पर भी अभियुक्त ने कहा कि वह इक़बालिया बयान देने के परिणामों को पूरी तरह समझता है। अभियुक्त ने फिर कहा कि वह इक़बालिया बयान स्वयं अपनी इच्छा से दे रहा है।
..........................................

’’کھیل کو کھیل ہی رہنے دو کوئی اور نام نہ دو‘‘

عزیز برنی

30
مارچ011کو جس وقت میں اپنے مسلسل مضمون کی 224ویں قسط بعنوان ’’میری آنکھوں میں تمہارے خواب ہیں‘‘لکھ رہا تھا،اس وقت موہالی میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ چل رہا تھا۔ ایک ایسا کرکٹ میچ جس کا تصور اس سے پہلے کبھی بھی نہیں تھا۔ مجھے طالب علمی کے زمانے سے ہی کرکٹ کا شوق رہا ہی۔ یونیورسٹی لیول تک کرکٹ کھیلتا بھی رہا ہوںاور آج بھی ہندوستان کی کرکٹ ٹیم کا مقابلہ چاہے کسی بھی ملک کی کرکٹ ٹیم سے ہو، میں وہ میچ ضرور دیکھنا چاہتا ہوں اور اس میچ میں ہندوستان کی فتح بھی ضرور چاہتا ہوں، لیکن 30مارچ011کو ورلڈ کپ سیمی فائنل میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والا کرکٹ میچ محض ایک کرکٹ میچ نہیں لگ رہا تھا۔ جس طرح کی تشہیر اور انتظامات اس کرکٹ میچ کے لئے کئے جارہے تھی، انہیں دیکھ کر یہ قطعاً اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ یہ کوئی کھیل کا مقابلہ ہی۔ ہمارے ملک کے سربراہان وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ، یوپی اے کی چیئرپرسن محترمہ سونیا گاندھی، حکمراں جماعت کانگریس کے جنرل سکریٹری اور نوجوان لیڈر راہل گاندھی، پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت ہندوستان کے فلم ورلڈ اور کارپوریٹ ورلڈ کی مایہ ناز شخصیتیں اس میچ کا لطف لے رہی تھیں۔ کرکٹ ان سب کا پسندیدہ کھیل ہے یا یہ اپنی ٹیموں کی حوصلہ افزائی کے لئے اپنی تمامتر مصروفیات کے باوجود وہاں موجود تھی۔ یہ تو وہی جانیں، ہاں اگر دونوں ممالک کے درمیان رشتوں کو بہتر بنانے کی نیت سے اور گفتگو کے نئے باب کی شروعات کے لئے کرکٹ میدان کا خوشگوار ماحول ان کے ذریعہ منتخب کیا گیا تو اسے خوش آئند پیغام سمجھا جاسکتا ہی۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہندوستان نے اس میچ میں جیت حاصل کی، لیکن ہمیں افسوس ہے کہ پاکستان کی ہار کے بعد بہت سے پاکستانی شہریوں کو یہ صدمہ برداشت نہیں ہوا، خودکشی سے لے کر دل کی دھڑکن بند ہوجانے یعنی ہارٹ اٹیک تک کے واقعات سامنے آئی۔ کیا ہمیں کھیل کو اس درجہ جذباتی انداز میں لینا چاہئی۔ کیاہندوستان اور پاکستان کے درمیان کھیل کھیل نہ رہ کر آبرو کا سوال بن گیا ہی۔ وقار کی جنگ بن گیا ہی۔ کھیل کی اس ہار جیت کو کیا ہم نے دو ملکوں کی ہار جیت تسلیم کرلیا ہی۔ اگر ایسا ہے تو یہ مناسب نہیں ہی۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے اس ورلڈکپ میں جس قدر بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا، اس کے لئے تمام پاکستانی کرکٹ کھلاڑی اور کپتان شاہد آفریدی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ پاکستانی ٹیم نے جس طرح ویسٹ انڈیز کو دس وکٹ سے ہرایا، آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم کو شکست دی اور فائنل تک پہنچنے والی سری لنکا کی ٹیم کو بھی ہرانے میں کامیابی حاصل کی، کیا یہ کوئی معمولی بات تھی۔ رہا سوال ہندوستان سے ہار جانے کا تو دو اچھی ٹیموں کے درمیان جب مقابلہ ہوتا ہے تو ان میں سے کوئی ایک تو جیتتی ہی ہے اور دوسری ہارتی ہی۔ اسے ہمیں ایک کھیل کی طرح لینا اور سمجھنا چاہئی۔ اگر پاکستان کے کپتان کو ہندوستان سے شکست کے بعد احساس جرم ہو اور اپنے ملک کے عوام سے معافی مانگنی پڑے تو کیا اسے کھیل کی صحت کے لئے ایک مثبت قدم قرار دیا جاسکتا ہی۔ انگلینڈ جس نے کرکٹ کے کھیل کو جنم دیا، وہ ٹیم سیمی فائنل تک بھی نہیں پہنچ پائی۔ اس ورلڈ کپ میں اسے بنگلہ دیش، آئرلینڈجیسی ٹیموں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کیا اس ٹیم کے کپتان نے ورلڈ کپ میں اس ہار کے لئے اپنے ملک کے شہریوں سے معافی مانگی۔ ساؤتھ افریقہ اور آسٹریلیا کرکٹ کی دنیا کی سب سے مضبوط ٹیمیں مانی جاتی رہی ہیں۔ دونوں ہی سیمی فائنل تک نہیں پہنچ سکیں۔ کیا انہوں نے اپنے اپنے ملک کے شہریوں سے معافی مانگنے کی ضرورت محسوس کی۔ کرکٹ ایک کھیل ہی۔ کھیل میں کوئی بھی ٹیم ہار سکتی ہے اور اس روز کھیل کے ہر شعبہ میں بہترین مظاہرہ کرنے والی ٹیم جیت سکتی ہی۔ اس کھیل کو بالخصوص جب یہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہو تب بھی ہارجیت کو اس طرح جذبات کے ساتھ نہیں جوڑ لینا چاہئے کہ اس کے منفی اثرات دیکھنے کوملیں۔
ایسے وقت میں جب ہندوستان کی تمام سڑکوں کا رُخ چنڈی گڑھ کی طرف مڑگیا تھا، تقریباً ہر ہندوستانی یہ میچ دیکھنے کے لئے موہالی پہنچنا چاہتا تھا۔ پاکستان سے واگھہ بارڈر کے راستہ بڑی تعداد میں کھیل کے شائقین موہالی پہنچ رہے تھے اور جو نہیں پہنچ سکے وہ ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے بیٹھ کر اس کھیل کا لطف لے رہے تھی۔ اس وقت میں اپنا مضمون ’’میری آنکھوں میں تمہارے خواب ہیں‘‘ لکھ رہا تھا۔جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ کرکٹ ایک زمانہ سے میرا پسندیدہ کھیل رہا ہے اور آج بھی ہی، لہٰذا یہ بڑا مشکل تھا کہ میں خود کو اس روز اس کھیل سے دور رکھ پاتا۔ پوری طرح رکھ بھی نہیں پایا، لیکن مجھے اس بات کا بھی احساس تھا کہ میں اپنے مضمون کے تسلسل کو ٹوٹنے بھی نہیں دینا چاہتا تھا، اس لئے کہ بہرحال کھیل ایک کھیل ہی۔ فرض اور ذمہ داری کا احساس اس سے الگ ہی۔ اگر دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چل سکتی ہیں تو بہت بہتر ہے اور اگر ایسا نہ ہوسکتا ہو تو ہم اپنی ذمہ داریوں سے منھ نہیں موڑ سکتی۔ آج یہ سب لکھنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ شاید آنے والے کل میں ہم کرکٹ کو ایک کھیل تک محدود نہیں رہنے دینا چاہتی، بالخصوص ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اگر یہ کرکٹ کا کھیل ہورہا ہو تویہ عامرخان کی فلم ’’لگان‘‘ کی کہانی بن جاتا ہی۔ اس فلم کا موضوع یہی تھا، مگر اس وقت اس کھیل میں جیت کا مقصد کچھ اور تھا۔ آج ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والا کرکٹ میچ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان ہونے والے کرکٹ میچوں کی طرح تو دیکھا جاسکتاہی، لیکن کسی جنگ کی طرح نہیں۔ ان دونوں میں سے کسی بھی ملک کے شہری ہار اور جیت سے اس درجہ متاثر ہونے لگیں کہ ان کی جان پر بن آئے تو پھر ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر ہم نے اب کھیل کو کیا بنا دیا ہی۔ یہ نوابوں کا دور نہیں ہے کہ دو بٹیروں کی لڑائی وقار کی لڑائی بن جائی۔ یہ ایک کھیل ہے اور ہمیں اس کو کھیل کے جذبہ سے لینا ہی۔ اگر کسی بھی ملک کا کھلاڑی اچھے کھیل کا مظاہرہ کررہا ہی، مگر اس کی ٹیم جیت حاصل نہیں کرسکی تب بھی وہ کھلاڑی قابل تعریف سمجھا جانا چاہئی۔ ہوسکتا ہے میری یہ رائے قابل رد ہو، قابل اعتراض ہو، مگر کوئی بھی کھیل یا کسی بھی کھیل کا مقابلہ اس کھیل کے شائقین کی جان کے لئے خطرہ بن جائے تو مجھے لگتا ہے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہی۔
کل ہمیں ورلڈ کپ کے آخری مقابلہ میں سری لنکا کے خلاف میدان میں اترنا ہی۔ جس وقت آپ میرا یہ مضمون پڑھ رہے ہوں گی، تقریباً تمام ٹیلی ویژن چینلز ممبئی کے وانکھیڑے اسٹیڈیم میں چلنے والی سرگرمیوں کی خبریں دکھا رہے ہوں گی۔ ممبئی شہر کے ہر گلی کوچے میں کس طرح اس کھیل کا تذکرہ ہورہا ہی، یہ آپ کے سامنے پیش کیا جارہا ہوگا۔ مہاراشٹر میں پہلے ہی سرکاری تعطیل کا اعلان کردیا گیا ہی۔ مجھے یہ امید ہے کہ ہماری ٹیم یہ آخری مقابلہ بھی ضرور جیت لے گی اور میری خواہش بھی یہی ہی۔ لیکن خدانخواستہ اگر نتیجہ ہماری امیدوں یا خواہشات کے برعکس ہو تو بھی ہم اپنے ملک کے ایک بھی شہری کو جان گنواتے ہوئے دیکھنا پسند نہیں کریں گی۔ آج ہم نے اس کھیل میں برتری ساری دنیا پر ثابت کر دی ہے کہ ہندوستان کی کرکٹ ٹیم آج دنیا کی بہترین کرکٹ ٹیم ہی۔ سچن تندولکر جیسا بلے باز آج ساری دنیا میں نہیں ہی۔ برسوں بعد کرکٹ کے میدان پر ہمیں یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ہماری ٹیم ایک ٹیم کی طرح کھیل رہی ہی۔ ٹیم کا ہر کھلاڑی کسی نہ کسی شکل میں جیت کا حصہ بنتا نظر آرہا ہی، جو کھلاڑی میدان کے باہر بیٹھے ہیں، وہ بھی اتنے باصلاحیت ہیں کہ ان میں سے اگر کسی کو بھی اپنے ملک کے لئے کھیلنے کا موقع ملتا ہے تو وہ اپنی اہمیت ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرتا نظر آتا ہی۔ ہماری کرکٹ ٹیم کے کپتان مہندرسنگھ دھونی صرف اپنی کپتانی کے لئے بھی اس ذمہ داری کے لئے شائقین کی پہلی پسند بن گئے ہیں۔ نہ ٹیم ٹکڑوں میں بٹی ہی، نہ کھلاڑیوں کے انتخاب میں کسی سیاست کا دخل نظر آرہا ہے اور نہ ہی یہ کہ کوچ کا فیصلہ کپتان کو اپنی پسند کے کھلاڑی چننے کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہی۔ ان تمامتر خوبیوں کے باوجوداگر ہم کسی ایک میچ میں اس دن کامیابی حاصل نہیں کرپاتے تو اس کو اس درجہ دل پر قطعاً نہیں لیا جانا چاہئے کہ ہمارے کھلاڑیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی، وہ خود کو شرمندہ محسوس کریں یا انہیں اسے احساس جرم ہونے لگی۔ وہ ہمارے ملک کے لئے کھیل رہے ہیں، انہیں ہمارا پیار اور دعائیں درکار ہیں اور ہماری اخلاقی حمایت بھی، لیکن ہماری خواہشات اور آرزوؤں کا بوجھ اس طرح ان کے سر پر نہ ہو کہ وہ اپنے کھیل کے ساتھ انصاف نہ کرپائیں، شاید یہی کھیل کے حق میں ہی۔
aایک اور اہم موضوع جس پر میں کل بھی لکھنا چاہتا ہوں اور آج بھی اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، حالانکہ لکھنے کے لئے اب گنجائش بہت کم رہ گئی ہی، لہٰذا کرکٹ کے تذکرہ کو یہی ختم کرتے ہوئے میں اسیمانند کے تازہ رُخ پر چند جملے ضرور لکھنا چاہتا ہوں۔ اسیمانند نے اپنے تازہ بیان میں کہا کہ یہ اقبالیہ بیان ان کی مرضی کے مطابق نہیں تھا، ان پر دباؤ ڈالا گیا تھا، اس لئے انتہائی مجبوری میں انہیں اس طرح کا بیان دینا پڑا۔ ہوسکتا ہے سچ وہی ہو، جو وہ اب کہہ رہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ سچ یہ ہو کہ انہوں نے اس وقت جو بیان دیا وہ بغیر کسی دباؤ کے تھا اور دباؤ ان پر اب ڈالا گیا ہی۔ آج وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ انتہائی مجبوری میں اور دباؤ ڈالے جانے کی وجہ سے کہہ رہے ہیں۔ دونوں بیانات کے درمیان کے وقفہ پر بھی ہمیں نظر ڈالنی ہوگی۔ اسیمانند نے یہ بیان جب مجسٹریٹ دیپک دباس کے سامنے درج کرایا، وہ تاریخ 18دسمبر010 تھی۔ ہم اس بیان کے ابتدائی مراحل اپنے قارئین کے گوش گزار ضرور کردینا چاہتے ہیں، تاکہ اندازہ کیا جاسکے کہ اس وقت جب اسیمانند مجسٹریٹ کے سامنے یہ بیان درج کرا رہے تھے تو کس حد تک ذہنی دباؤ میں تھے یا سی بی آئی کا دباؤ ان پر تھا۔ ممکن ہے کہ آج کے بعد کل کا مضمون پھر اسی موضوع پر ہو، لیکن آج مزید کچھ بھی لکھنے سے قبل ہم چاہیں گے کہ اسیمانند نے کب کن حالات میں اپنا یہ بیان خود اپنے قلم سے درج کیا، پہلے ایک نظر اس پر ڈالیں پھر اس پہلو پر غورکریں کہ تب سے اب تک یعنی دوسرا بیان جاری ہونے تک کیا واقعی اسیمانند کو اتنا موقع نہیں ملا کہ جو بات وہ آج کہہ رہے ہیں، ان کے اس قبول نامہ کے بعد کے چند روز میں نہیں کہی جاسکتی تھی۔بہرحال اس موضوع پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا، لیکن پہلے اسیمانند کا وہ قبول نامہ درج کرائے جانے کے وقت کے حالات قارئین کے سامنے رکھ دینا ضروری ہی۔ ملاحظہ فرمائیں:
"At this stage, I have told the accused that I am a Magistrate and he (accused) is no longer in CBI/police custody and CBI officers cannot enter the chamber without my permission and whatever is happening inside the chamber is not audible or visible to the people outside the chamber.
I have asked the accused whether he wants to make a confessional statement before me or not. To this, the accused has answered in the affirmative.
I have asked the accused whether he is making the confession voluntarily or under some fear, force, coercion or inducement. Accused has submitted that he is making confession voluntarily without any fear, force, coercion or inducement.
I have told the accused that he is not bound to make the confession or any statement at all and if he makes any such statement or confession then, It may be used against him in evidence during the trial of present case and he may be convicted on the basis of his confessional statement. To this, accused has submitted that he fully understands the consequences of making a confessional statement. Accused has further submitted that he is giving his confessional statement voluntarily."
اس موقع پر میں نے ملزم کو بتایا کہ میں ایک مجسٹریٹ ہوں اور وہ (ملزم) اب سی بی آئی/پولیس حراست میں نہیں ہے اور میری اجازت کے بغیر چیمبر میں سی بی آئی افسر داخل نہیں ہوسکتے اور جو کچھ بھی اس چیمبر میں ہورہا ہی، اسے چیمبر کے باہر موجود لوگ نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں۔
پھر میں نے ملزم سے پوچھا کہ وہ میرے سامنے اقبالیہ بیان دینا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس پر ملزم نے ہاں میں جواب دیا۔
میں نے ملزم سے پوچھا ہے کہ کیا وہ اپنا اقبالیہ بیان اپنی مرضی سے دے رہے ہیں یا کسی خوف، دباؤ، مجبوری یا اکسانے پر دے رہے ہیں۔ ملزم نے درج کرایا کہ وہ اقبالیہ بیان بغیر کسی خوف، دباؤ یا مجبوری کے اپنی مرضی سے دے رہا ہی۔
میں نے ملزم کو بتادیا ہے کہ وہ اقبالیہ یا کوئی اور بیان دینے کا بالکل بھی پابند نہیں ہی۔ اور اگر وہ کوئی اقبالیہ بیان دیتا ہے تو وہ بیان اس کے خلاف حالیہ سماعت کے دوران ثبوت کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس کے اقبالیہ بیان کی بنیاد پر مجرم قرار دیا جاسکتا ہی۔ اس پر بھی ملزم نے کہا کہ وہ اقبالیہ بیان دینے کے نتائج مکمل طور پر سمجھتا ہی۔ ملزم نے پھر کہا کہ وہ اقبالیہ بیان خود اپنی مرضی سے دے رہا ہی۔